امریکی صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم سے ناراض، براہ راست رابطہ منقطع کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے براہ راست رابطہ منقطع کرنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ اسرائیل میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے امداد کی فراہمی کا آپریشن جلد اسرائیلی شمولیت کے بغیر شروع ہونے والا ہے۔
ترک نشریاتی ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی آرمی ریڈیو کے رپورٹر یانر کوزین نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب قریبی رفقا نے اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر کو بتایا کہ صدر کو یقین ہے کہ نیتن یاہو انہیں چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے مزید کہا کہ ریپبلکن رہنماؤں کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں رون ڈرمر کا لہجہ خود پسندانہ اور عدم تعاون پر مبنی سمجھاگیا، یہ مذاکرات اس بارے میں تھے کہ ٹرمپ کو کیا کرناچاہیے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں نے انہیں بتایا کہ نیتن یاہو انہیں چالاکی سے استعمال کر رہے ہیں، ٹرمپ کو اس بات سے سب سے زیادہ نفرت ہے کہ انہیں بیوقوف کے طور پر پیش کیا جائے یا کوئی ان سے کھیلے، اسی وجہ سے انہوں نے نیتن یاہو سے رابطہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
یانر کوزین نے کہا کہ ایرانی اور یمن کے حوثیوں کے بارے میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس منصوبہ اور وقت کی فراہمی نہ ہونا امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کی بگڑتی حالت کا ایک سبب ہے۔
فوجی ریڈیو کے نمائندے نے بھی اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو کی حکومت نے غزہ کے بارے میں کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا ہے۔
امریکا کا اسرائیل کی شمولیت کے بغیر غزہ کو امداد کی فراہمی جلد شروع کرنے کا اعلان
دوسری جانب انادولو نے اپنی رپورٹ میں یروشلم پوسٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ غزہ کے لیے امدادی خوراک کا آپریشن جلد شروع ہونے والا ہے اور یہ اسرائیل کی شمولیت کے بغیر جاری رہے گا۔
یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہکابی نے کہا کہ امداد کی فراہمی کا منصوبہ ایک ایسے طریقہ کار کے ذریعے کیا جائے گا جس پر متعدد شراکت دار متفق ہوں گے اور وہ کسی براہ راست فوجی تعاون پر انحصار نہیں کریں گے۔
مائیک ہکابی نے کہا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ میں محفوظ اور موثر طریقے سے خوراک تقسیم کی جائے۔
یہ اعلان اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے کہ واشنگٹن محصور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی براہ راست شمولیت کے بغیر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت سے ایک نئے اقدام پر زور دے رہا ہے۔
عہدیدار نے شراکت داروں کا نام لیے بغیر کہا کہ متعدد شراکت داروں نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے، انہوں نے فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے لیکن ابھی تک شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔
مائیک ہکابی نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل آئندہ آپریشن میں حصہ نہیں لے گا، امداد کی فراہمی کے لیے درست ٹائم لائن اور لاجسٹکس ابھی تک عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی گزرگاہوں کو خوراک، طبی اور انسانی امداد کے لیے بند کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں پہلے سے جاری انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں تقریباً 52 ہزار 800 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گزشتہ نومبر میں غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
اسرائیل کو غزہ کے خلاف جنگ پر عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔