خوفناک فالٹ لائنز اور زلزلے، کیا کراچی دھنس رہا ہے؟
اگرچہ شہر کے کچھ حصوں کو متاثر کرنے والا حالیہ زلزلوں کا سلسلہ ایک حد تک کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ’بلٹ اپ پریشر‘ چھوڑنے کے بعد فالٹ لائن اپنی جگہ پر آرہی ہے لیکن شہریوں میں بے چینی اب بھی موجود ہے جنہوں نے جون کے تین ہفتوں میں بار بار کم شدت کے کئی جھٹکے محسوس کیے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے یکم جون سے 22 جون تک کم شدت کے جھٹکوں کے سلسلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے قائد آباد، لانڈھی اور ملیر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ شدت کے زلزلے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
قائد آباد کے عمر ماروی گوٹھ میں مقیم مقامی صحافی بشیر احمد میرجات نے کہا، ’ہم اب معمول کی زندگی نہیں جی رہے۔ کسی آفت کا شکار ہونے کا خیال رات کو کئی بار مجھے نیند سے جگاتا ہے۔ گزشتہ رات بھی مجھے ہلکے جھٹکے محسوس ہوئے، پہلے صبح 3 بجے اور پھر 4 بج کر 45 منٹ پر لیکن زلزلے کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔ میرے خیال میں زلزلے کے جھٹکے اتنے معمولی تھے کہ اسے ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا تھا‘۔
ان کے مطابق گزشتہ ماہ سے صورت حال انتہائی پریشان کن رہی ہے۔ ہر جھٹکے پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے تھے، اپنی حفاظت کی دعائیں مانگتے تھے اور پھر جھٹکے رکنے پر اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔
وہ کہتے ہیں، ’یہ بے بسی کی حالت تھی۔ ہر دن زندگی کے آخری دن کی طرح لگتا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے 22 دنوں میں 40 سے زائد جھٹکے محسوس کیے جس میں 3.6 شدت کا پہلا جھٹکا بھی شامل تھا۔ زیادہ تعدد (فریکوئنسی) نے لوگوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا‘۔
بشیر احمد میرجات جو تین سال قبل کراچی منتقل ہوئے ہیں، ان کی طرح دیہی علاقوں سے آنے والے دیگر افراد نے بھی اپنی زندگی میں پہلی بار زلزلے کے واقعات کا سامنا کیا۔ صدمے اور خوف کی حالت میں ان میں سے بہت سے لوگ اپنی آبائی علاقوں کو واپس لوٹ گئے۔
لانڈھی کی رہائشی ٹیچر فائزہ شاہ زیب نے صرف دو ہفتے قبل ایک تیز اور شدید آواز سنی جس کے بعد زلزلہ آیا۔ انہوں نے کہا، ’اس نے ہم سب کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ پچھلے مہینے آنے والے زلزلے کے بعد لوگوں کو خوف کے مارے گھروں سے باہر نکلنا پڑا۔ ہم بہت خوفزدہ ہیں‘۔
رہائشی اس لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ حکومت نے ان حالات میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کیا یا صورت حال کے بارے میں واضح معلومات فراہم نہیں کیں۔
ملیر سٹی کے علاقے مسلم آباد میں 5 دہائیوں سے مقیم فائزہ شاہ زیب کی دوست شازیہ ندیم کہتی ہیں، ’ان دنوں سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی پیش کیا جا رہا ہے، لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں جوکہ بعض اوقات غلط معلومات کے پرچار کا باعث بنتے ہیں۔ آج تک زلزلوں سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے زیادہ تر علاقوں کے رہائشیوں کو آگاہ کرنے، تعلیم دینے اور تربیت دینے کے لیے حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس لیے ہم میں سے زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ اگر خدانخواستہ کوئی آفت آ جائے تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟
رہائشی سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی معلومات کی وجہ سے زلزلے کے سلسلے کو براہ راست اپنے علاقوں میں زیر زمین پانی کے اخراج سے منسلک کرتے ہیں حالانکہ یہ علاقے کئی دہائیوں سے پائپ کے ذریعے آنے والے پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ صورت حال ان کی زمین دھنسنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔
شہر میں آنے والے کم شدت کے جھٹکوں کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری جنہوں نے جاپان سے سیسمولوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا ہے، کہا کہ تاریخی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کراچی میں 1960ء کی دہائی سے وقتاً فوقتاً ہلکے سے درمیانے درجے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاتے رہے ہیں۔
فالٹ لائنز کے درمیان زندگی
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کئی فالٹ لائنز کے قریب ہے جن میں سے کچھ فعال اور کچھ غیر فعال ہیں۔ جون کے 22 دنوں میں حالیہ 57 چھوٹے زلزلے جیسے واقعات اس علاقے کی قدرتی ٹیکٹونک حرکتوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے جیولوجیکل سروے کے سابق ڈائریکٹر آصف رانا کہتے ہیں، ’لانڈھی، قائد آباد، گڈاپ اور ملیر کے علاقے فعال فالٹ لائنز کے قریب واقع ہیں جس کی وجہ سے وہاں زلزلوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ لانڈھی فالٹ میں بلٹ اپ توانائی کو آہستہ آہستہ چھوڑ کر کسی بڑے زلزلے سے پہلے چھوٹے زلزلے آ سکتے ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی کئی زلزلوں کی فالٹ لائنز کے قریب ہے، بشمول سندھ کے ساحل کے ساتھ اللہ بند فالٹ جو اس جگہ سے قریب ہے کہ جہاں انڈین، عربین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹس آپس میں ملتی ہیں۔ اس سے شہر کے قدرتی طور پر زلزلے کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
’اگرچہ ٹرپل جنکشن پر 1945ء کے بعد سے کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا لیکن ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ وہاں زلزلے کی بہت زیادہ توانائی پیدا ہوگئی ہے۔ اس سے علاقے میں بڑے زلزلے کا امکان بڑھ جاتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا سونمیانی کے قریب سمندر کے نیچے ہوتا ہے جو صرف 50 کلومیٹر دور ہے تو یہ سونامی کا سبب بن سکتا ہے جو کراچی سے ٹکرا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں سونامی کا باعث بننے والے زلزلوں کو 1881ء میں ریکارڈ کیا گیا۔ دو بڑے زلزلے، ایک 1945ء میں 8 کی شدت کا جبکہ دوسرا 1947ء میں 7.3 شدت کے زلزلے نے سونامی پیدا کیے جو سندھ اور مکران کے ساحلوں سے ٹکرائے۔
آصف رانا بتاتے ہیں کہ کراچی، بھارت-پاکستان کے مغربی علاقے میں زمین کے ایک مستحکم حصے کے کنارے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ مسلسل دباؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے پرانی، غیر فعال فالٹ لائنز دوبارہ فعال ہو رہی ہیں۔
’لانڈھی فالٹ کئی دہائیوں کے بعد حال ہی میں فعال ہوئی ہے اور اس وقت وہ دوبارہ معمول پر آنے کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ تھانو بُلہ خان کے قریب ایک اور فالٹ نے بھی پچھلے مہینے کے زلزلے کے واقعات میں اپنا حصہ ڈالا تھا‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بلوچستان کے موسیٰ خیل میں 5.5 شدت کے زلزلے کا تعلق کراچی میں آنے والے زلزلوں سے ہے تو انہوں نے کہا کہ ایسے کوئی اشارے نہیں جو ان کے درمیان تعلق کو ظاہر کریں کیونکہ کراچی کے زلزلے مقامی نوعیت کے اور مختلف ہیں۔
’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تمام زلزلے ایک ہی علاقائی ٹیکٹونک سرگرمی کی وجہ سے آتے ہیں۔ چھوٹے زلزلوں کا یہ گروپ معمول کی بات ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جلد ہی کوئی بڑا زلزلہ آنے والا ہے۔ اس خطے میں ماضی میں بڑے زلزلے آچکے ہیں جیسے کہ 1935ء میں کوئٹہ میں آنے والے 7.7 شدت کا مہلک زلزلہ جس میں 35 ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں‘۔
کم شدت کے 57 جھٹکوں میں سے سب سے زیادہ (33) ملیر کے قریب آئے۔ دیگر مقامات جن میں جھٹکے محسوس کیے گئے وہ قائد آباد، لانڈھی، گڈاپ، ڈی ایچ اے سٹی، ڈی ایچ اے کراچی اور کورنگی تھے۔ 2 جون کو 10 جبکہ اگلے روز تقریباً 12 جھٹکے محسوس کیے گئے۔
آخری 6 جھٹکے جن میں سے 4 کی شدت 3 سے زیادہ تھی، 22 جون کو ریکارڈ کیے گئے تھے۔ رانا آصف نے کہا، ’جو چیز اس بار غیرمعمولی ہے وہ ایک ہی مہینے میں ان کی زیادہ تعداد تھی کیونکہ شہر میں کبھی اتنا بڑا زلزلہ نہیں آیا‘۔
دونوں ماہرین شہر میں مزید کم شدت کے جھٹکوں کے امکان کی توثیق کرتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ زلزلوں کے اعتبار سے متحرک ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطرناک علاقوں میں لوگوں کو بڑے زلزلے سے بچنے کے لیے اہم معلومات اور آلات فراہم کیے جائیں اور یہ کہ عمارتوں کے حفاظتی اصولوں پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔
رانا آصف کا کہنا ہے کہ، ’اب وقت آگیا ہے کہ حکام صورت حال کو سنجیدگی سے لیں۔ گزشتہ برسوں میں کراچی جس بے ترتیبی سے پروان چڑھا ہے وہ تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہلکی شدت کے جھٹکے (4 اور 5.5 شدت کے درمیان) بھی گنجان آباد علاقوں میں تباہی پھیلا سکتے ہیں‘۔
پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے سابق سربراہ جناب معین رضا خان کہتے ہیں کہ ہمیں فالٹ لائنز پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ زمین کی پلیٹوں کی حرکت زمین کی سطح کو ہلاتی ہے اور زمین کے اندر اور اوپر عمارتوں اور ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’جب زمین حرکت کرتی ہے تو یہ دوبارہ اپنی جگہ پر آنے کی کوشش کرتی ہے اور پھر پُرسکون ہوجاتی ہے۔ یہ دوبارہ توازن قائم کرنے کا عمل کہلاتا ہے۔ ہمیں اپنی فالٹ لائنز پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ یقینی بنانے کی ضرروت ہے کہ لوگوں اور سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے ہماری عمارتیں اور ڈھانچے محفوظ رہیں‘۔
ڈوبتا ہوا شہر
زیر زمین پانی کے اخراج اور زلزلوں کے درمیان تعلق پر سینئر میرین جیولوجسٹ ڈاکٹر آصف انعام جوکہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سابق سربراہ بھی ہیں، نے وضاحت کی کہ کراچی دنیا بھر کے دیگر ساحلی شہروں کی طرح گھریلو اور صنعتی دونوں مقاصد کے لیے زیرزمین پانی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کنٹرول کیے بغیر بہت زیادہ پانی نکالنے کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم قدرتی طور پر زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے زیرزمین مٹی اپنی جگہ تبدیل کرلیتی ہے جس سے زمین دھنس جاتی ہے۔ یہ دھنسنے والی زمین کراچی کے ساحل پر دراڑیں یا خرابیاں پیدا کرتی ہے۔
آصف انعام نے کہا، ’کراچی میں پانی کے غیر قانونی پمپنگ کو روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ ساحلی علاقوں کو پہلے ہی سطح سمندر میں اضافے کا خطرہ ہے، اگر زمین مزید دھنستی ہے تو یہ مسئلہ مزید سنگین ہوجائے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے بین الحکومتی پینل کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آخر تک کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر کی سطح تقریباً 60 سینٹی میٹر تک بڑھ سکتی ہے‘۔
ڈاکٹر آصف انعام نے کراچی کے لیے ایک جامع کوسٹل زون مینجمنٹ پلان کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اسٹریٹجک انفرااسٹرکچر کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور متعلقہ ساحلی خطرات سے بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’جدید جیوڈیٹک تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے تبدیلیوں کی مسلسل نگرانی کرنا ضروری ہے جیسا کہInSAR ( انٹرفیومیٹرک سنتھیٹک اپرچر ریڈار ) اور جی پی ایس (گلوبل پوزیشننگ سسٹم) ٹولز زمین کی اونچائی میں چھوٹی تبدیلیوں کی بھی نگرانی کرسکتے ہیں جن سے عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا سیلاب کے امکان میں اضافہ ہوسکتا ہے‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔