’ٹرمپ نوبیل کے اتنے ہی حقدار ہیں جتنے کہ گجرات کا قصائی مودی اور نسل کش نیتن یاہو!‘

شائع June 25, 2025

مرزا غالب کا شعر ہے،

گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفاداری،
کیا کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے

حکومتِ پاکستان نے ایک ایسے شخص کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا ہے جس نے ایران کے ساتھ مذاکرات کا دکھاوا کرکے اس کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔ یہ عالمی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے، عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے قواعد اور خود امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ایران جوکہ پاکستان کا مسلم ہمسایہ ملک ہے اور جس نے کشمیر اور بھارت کے ساتھ تنازعات میں پاکستان کی حمایت کی، ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پر اسرائیل کے مجرمانہ حملے کی بھی سہولت کاری کی۔

ایران پر اسرائیل کا حملہ اس کی فلسطینی عوام کے خلاف ایک صدی پرانی نسل کش کارروائیوں کا نتیجہ ہے جبکہ امریکا کی اس جنگ میں شمولیت بھی مسلم ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے ایک بڑے امریکی منصوبے کا حصہ معلوم ہوئی۔ لیکن یہ سب اس سے بھی ایک بڑے منصوبے سے منسلک ہے جس کا مقصد پاکستان کے قریبی اتحادی چین کو کمزور کرنا ہے جسے امریکا عالمی حریف کے طور پر دیکھتا ہے۔

24 جون کو نام نہاد جنگ بندی کا اعلان ہوا لیکن امن اور جنگ کا جو ہولناک کھیل ڈونلڈ ٹرمپ کھیل رہے ہیں، اس سے ایران اور دیگر مسلم ممالک کے عوام کی اموات، تباہی اور مصائب کی ذمہ داری ان پر سے کم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ تمام غیرت مند پاکستانیوں کو حکومت سے اس فیصلے سے شدید شرمندگی محسوس ہوئی۔

ابتدائی طور پر یہ اطلاعات تھیں کہ فیلڈ مارشل نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ خبریں جلد ہی ہٹ گئیں جبکہ پاکستانی میڈیا نے بھی اسے رپورٹ نہیں کیا۔ اس کی سرکاری طور پر تردید نہیں کی گئی کیونکہ وائٹ ہاؤس اس کی تصدیق کرتا دکھائی دیا۔ تاہم اب وزیر اعظم نے فیصلہ کرچکے ہیں۔

ٹرمپ نوبیل امن انعام کے اتنے ہی حقدار ہیں جتنے کہ گجرات کا قصائی مودی اور نسل کش نیتن یاہو! شاید ٹرمپ جو فی الحال کئی نوبیل امن انعامات کے حقدار ہیں جب پاکستان ان کے خلاف جاتا نظر آئے تو شاید اتنے مہربان نہ رہیں۔ اب ترامیم ہوچکی ہیں اور ہم نے یہ سیکھا ہے کہ کوئی ظہرانہ مفت نہیں ہوتا۔ تاہم پاکستان اور مسلم دنیا میں موجود غم و غصے کے پیش نظر یہ فیصلہ ایک بار پھر زیرِ بحث آچکا ہے۔

1972ء میں ترکیہ کے شہر ازمیر میں ذوالفقار علی بھٹو نے سفیروں کی ایک کانفرنس میں کہا کہ چھوٹے ممالک اپنی سلامتی کے لیے صرف طاقت کی سیاست پر انحصار نہیں کرسکتے۔ بلآخر انہیں بین الاقوامی قانون، اخلاقی اصولوں اور عالمی قوانین پر اعتماد کرنا ہی پڑا۔

اقوام متحدہ کا چارٹر میں ’آئندہ نسلوں کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے‘ عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل نیورمبرگ جنگی جرائم کے ٹریبونل نے کہا تھا کہ جارحیت کی جنگ شروع کرنا ’سب سے بڑا بین الاقوامی جرم‘ ہے کیونکہ یہ نسل کشی جیسے دیگر بہت سے خوفناک عوامل کو جنم دے سکتا ہے۔

آج جارحیت پر مبنی جرائم کی تحقیقات بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کرتی ہے۔ تاہم ٹرمپ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر جنگی جرائم کے الزام میں کسی امریکی فوجی پر مقدمہ چلایا گیا تو وہ آئی سی سی پر بمباری کریں گے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے کوئی بھی ملک اتنے عالمی جنگی جرائم کا مرتکب نہیں جتنے کہ امریکا نے کیے ہیں۔

نوم چومسکی کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہر امریکی صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر دوسرے ممالک کے خلاف غیر مجاز جارحیت کا مجرم رہا ہے۔ یہ امریکی آئین کے مطابق سنگین جرائم ہیں جن پر سزائے موت تک ہوسکتی ہے۔

حال ہی میں ٹرمپ نے آئی سی سی کے ان 4 ججز پر سفری پابندی عائد کی جنہوں نے امریکی فوجیوں پر جنگی جرائم کا الزام لگانے کی جرأت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے آئی سی سی کی توثیق نہیں کی ہے لیکن یہ کسی بھی طرح سے اسے آئی سی سی کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار نہیں دیتا کیونکہ یہ عدالت ان دیگر ممالک خاص طور پر امریکا کے ناپسندیدہ ممالک کے عوام کو بھی اپنے کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے جنہوں نے اس کے اختیار کو قبول نہیں کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل جو اپنے جارحانہ رویے کے لیے جانا جاتا ہے، نے زیادہ تر امریکی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کے لیے شکاری کتے کے طور پر کام کیا ہے جو ٹرمپ اور اس کے اقدامات کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ اپنے متعلقہ عہدے چھوڑنے کے بعد ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں کو بدعنوانی کے الزام میں جیل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ دیرپا امن کے خواہاں نہیں۔

اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ ایران کے جوہری بم بنانے سے اسے ’بقا کا خطرہ‘ لاحق ہے۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے جس کا ادراک دنیا کے تمام خارجہ دفاتر کو ہے۔ اسرائیل اسے اپنی بقا کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا قیام خود فلسطینیوں اور خطے کے لوگوں کے خلاف ایک جرم ہے۔

آج اسرائیل کو کئی قریبی ممالک کے لیے ایک سنگین خطرہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ 9/11 کے فوراً بعد منظور ہونے والے پینٹاگون کے منصوبے، جس کا انکشاف یورپ میں نیٹو کی قیادت کرنے والے ریٹائرڈ امریکی جنرل ویسلے کلارک نے کیا، اس کے تحت خطے کے 7 ممالک کی حکومتوں کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس میں سب سے آخر میں ایران کا نام بھی شامل تھا۔ جب یہ تمام 7 ممالک میں ان کا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا تو کیا تب ترکیہ اور پاکستان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟

ایران نے مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک زون بنانے کی عرب تجویز کو قبول کر لیا تھا جس سے اس کا پاس جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ختم ہو سکتا تھا۔ تاہم امریکا نے اس تجویز کو مسترد کردیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اسرائیل خطے میں واحد، غیر اعلانیہ اور غیر قانونی جوہری طاقت رکھنے والا ملک بنا رہے۔ بعدازاں 2015ء میں ایران نے پی 5 پلس ون ممالک یعنی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور جرمنی کے ساتھ مشترکہ جامع منصوبہ بندی (جے سی پی او اے) پر بات چیت کی۔

کچھ پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں اپنی یورینیم کی افزودگی کو 3.7 فیصد سے زیادہ نہ بڑھانے پر ایران آمادہ ہوا۔ لیکن ٹرمپ کے جے سی پی او اے معاہدے سے دستبردار ہونے کے فیصلے جس پر اس کے یورپی اور نیٹو اتحادیوں نے بھی تنقید کی، کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھا دیا لیکن یہ اب بھی ایٹم بم بنانے کے لیے درکار 90 فیصد سے بہت کم ہے۔ اگرچہ آئی اے ای اے نے ایران پر تنقید کی لیکن نہ تو آئی اے ای اے اور نہ ہی امریکی انٹیلی جنس نے کبھی اس بات کی تصدیق کی کہ ایران نے واقعی ایٹمی بم بنا لیا ہے۔ جبکہ ایران نے ہمشیہ اس کی تردید کی ہے۔

ٹرمپ صدارت کی واپسی کے ساتھ یورپی اور نیٹو ممالک کی اخلاقی اتھارٹی ختم ہوگئی جس سے امریکا کے لیے مشرق وسطیٰ میں مزید جنگیں شروع کرنا آسان ہوگیا۔ بدقسمتی سے علاقائی حکمران اشرافیہ نے دوہرا کھیل کھیل کر اپنی بقا اور طبقاتی تحفظ کو ترجیح دی۔

آخر میں بھارت کے ساتھ اپنے حالیہ تنازعے میں پاکستان نے چین کی تکنیکی تربیت اور مدد کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قابل قدر احترام حاصل کیا۔ لیکن اب اگر پاکستان چین کے اہم حریف کا تھوڑا سا بھی ساتھ دے رہا ہے تو چین اسے کیسے دیکھے گا؟ کیا چین کسی بھی سافٹ اسٹیٹ پر بھروسہ رکھنا جاری رکھ سکتا ہے جو اس کے اور اس کے خودساختہ دشمن کے ساتھ ’متوازی‘ تعلقات کی کوشش کررہا ہے؟ جلد یا بدیر چین ہم سے مایوس ہوسکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اشرف جہانگیر قاضی

لکھاری امریکا، ہندوستان اور چین میں پاکستانی سفارتکار رہ چکے ہیں اور عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشنز کے سربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2025
کارٹون : 27 جون 2025
OSZAR »