’اگر تیسری جنگ عظیم ہوتی ہے تو یہ بھی بیانیے کی جنگ ہوگی‘
ولادیمیر لینن نے ایک بار کہا تھا، ’دہائیاں گزر جاتی ہیں جس میں کچھ نہیں بدلتا اور پھر کچھ ہفتے ایسے ہوتے ہیں جن میں دہائیاں بیت جاتی ہیں‘۔ یہ پچھلا ہفتہ اسی کی مثال ہے۔ ہفتوں میں دہائیاں گزر چکی ہیں اور ممکن ہے کہ جب آپ اس تحریر کو پڑھیں تو اس سے بھی زیادہ دہائیاں گزر چکی ہوں۔
7 اکتوبر 2023 سے دنیا بڑی، تباہ کن جنگوں کے دہانے پر کھڑی ہے اور اب پہلے سے کہیں زیادہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاید ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی شاید ہی ممکن ہو۔ اگر امریکا ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں شامل ہوتا ہے تو واپسی کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔
ہمارے پریشان حال سیارے کے لیے عالمی جنگیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اگر آپ نے ان کے لیے وقف میوزیم کا دورہ کیا ہے، تو وہاں پورے ہال پروپیگنڈا پوسٹرز سے بھرے نظر آتے ہیں۔ یہ پوسٹرز لوگوں کے حوصلے بلند کرنے، انہیں جنگ کی حمایت کے لیے آمادہ کرنے یا طاقتور رہنماؤں کی پشت پناہی کرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ روس اور جرمنی دونوں اس قسم کے پوسٹرز استعمال کرتے تھے۔ آج ہم اپنے زمانے کی اخلاقیات، پہلو اور جس چیز کو ہم صحیح یا غلط سمجھتے ہیں، اس کے ذریعے ان چیزوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔
تیسری جنگ عظیم میں بھی بیانیے کو کنٹرول میں رکھنے کا اہم کردار ہوگا۔ ماضی میں بم دھماکوں میں وقفے کے دوران عام لوگ بازاروں میں یا گلیوں کے کونوں میں جمع ہو کر خبریں اور خیالات شیئر کرتے تھے۔ اب بیانیہ کی جنگ ٹک ٹاک اور ایکس جیسے ورچوئل پلیٹ فارمز پر لڑی جاتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل لڑائی تقریباً اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی کہ زمین پر حقیقی جنگ ہوتی ہے۔ لوگ جس طرح سے دیکھتے ہیں کہ کون جیت رہا ہے یا کون حق پر ہے، اکثر ان آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے شیئر کیے گئے ویڈیوز اور پیغامات پر منحصر ہوتا ہے۔
الیکٹرونک جنگ میں میمز بنانا، ٹوئٹس کا پھیلاؤ، ریلز کی تخلیق وغیرہ شامل ہیں۔ درحقیقت مواد اور بیانیے کو تشکیل دینے کی کوشش اکثر پہلے میزائل کے لانچ ہونے سے قبل ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل بیانیے پر غلبے کے لیے عالمی میڈیا کی حمایت پر انحصار کرتا تھا۔
جیسا کہ بہت سے ماہرین نے نوٹ کیا ہے، سی این این، بی بی سی اور اے پی جیسے چینلز اکثر واقعات کے اسرائیلی ورژن پیش کرتے ہیں، بنیادی طور پر زمینی حقائق دکھانے کے بجائے اسرائیلی فوج کے بیانات کو دہراتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب غزہ تباہ ہو رہا ہے، اس کے اسپتال اور اسکولز ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، میڈیا کی زیادہ تر کوریج نے بڑے انسانی بحران کے بجائے میڈٰیا کی غیر متناسب توجہ چند اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات کی بازیابی پر مرکوز ہے۔
اگر میڈیا چینلز کو متبادل ورچوئل پلیٹ فارمز کے ذریعے تبدیل نہ کیا جاتا تو یہ ایک فریق کے بیانیہ کے غلبے کا ایک قابل اعتماد طریقہ ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ ایکس اور انسٹاگرام پر الگورتھم مکمل طور پر غیر جانبدار نہیں ہیں لیکن وہ ایک فریق کی جانب سے زبردستی مواد کے سیلاب سے زیادہ موزوں ہیں۔ یوٹیوب لوگوں کو لائیو اسٹریم کرنے یا ان مسائل کے بارے میں بات کرنے کا موقع دیتا ہے جو ہو سکتا ہے کہ خبروں میں دکھائی نہ دیں۔
مثال کے طور پر جب اسرائیلی میڈیا اور آن لائن اکاؤنٹس نے ایک اسپتال کی تصاویر شیئر کیں (جو پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا اور ایک فوجی دفاعی سائٹ کے قریب واقع تھا) ایرانی میزائل کا نشانہ بنایا گیا تو سوشل میڈیا پر لوگوں نے فوری طور پر نشاندہی کی کہ اسرائیل پہلے ہی غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے بیشتر کو تباہ کرچکا ہے۔ اس آن لائن ردعمل کو حقیقت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ جنگ بھڑکانے والا اسرائیل ہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ وہ رائے عامہ کی جنگ ہار رہا ہے، اسرائیل نے میڈیا پر کنٹرول سخت کردیا ہے۔ اس نے ملک کے اندر لوگوں پر ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کرنے پر پابندی لگا دی ہے تاکہ کیا نقصان یا تباہ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں معلومات پر قابو پایا جاسکے۔ بدقسمتی سے اس طرح کی سنسرشپ کو نافذ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ نقصان کی ویڈیوز ویسے بھی لیک ہو رہی ہیں جبکہ ایرانی ذرائع اسرائیل کے اندر ہونے والے نقصانات کی اپنی ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں۔
امریکا میں یہ بحث کہ اسے جنگ میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں، ری پبلکن پارٹی کی اندرونی لڑائی کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ ہوچکی ہے۔ میک امریکا گریٹ اگین (MAGA) کے حامی جو ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں لے کر آئے، مشرقِ وسطٰ تنازع یں شمولیت کے مخالف ہیں۔ انہوں نے ایکس پر ناراضی کا اظہار کیا کہ امریکی ٹیکس کی رقم اسرائیل کو دی جا رہی ہے حالانکہ گھر میں سنگین مسائل موجود ہیں۔
ایک ویڈیو میں MAGA کے سپر اسٹار میزبان ٹکر کارلسن نے جنگ کے حامی امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے بارے میں کچھ جانے بغیر ایران پر بمباری کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر MAGA کا مواد اب دنیا بھر سے اسرائیل مخالف پیغامات کے ساتھ صف آرا ہے اور عوامی رائے کو تشکیل دینے کے لیے میں مل کر کام کر رہا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کیسے ختم ہوگی یا دنیا کے مستقبل کے لیے اس کا کیا مطلب ہے۔ اگر امریکا جنگ میں شامل ہوتا ہے اور امریکی پائلٹ یا بحری فوجی تابوت میں واپس آتے ہیں تو صدر کے طور پر ٹرمپ کی طاقت ختم ہو جائے گی۔ ٹرمپ کے الفاظ میں، ’جنگ کمزوروں کے لیے ہے جبکہ امن مضبوطی کے لیے‘۔ حملہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر سے پتا چلتا ہے کہ امریکا کو اپنی پوزیشن پر اعتماد نہیں ہے اور اس کا صدر اپنے اختیارات سے مایوس ہے۔
اگر وہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں اپنے MAGA ووٹروں کی حمایت سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔ لیکن اگر وہ جنگ سے باہر رہتے ہیں تو وہ امیر یہودی عطیہ دہندگان کی حمایت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی ایک ٹوئٹ میں اس کا خلاصہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے دونوں انتخاب پر ہار کا سامنا کرنے کی صورت حال سے تشبیہ دے سکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔