کیا ایران کے عوام لیبیا، شام اور عراق جیسے انجام سے بچ پائیں گے؟

شائع June 18, 2025

فیض احمد فیض کا معروف شعر ہے، ’آغاز سے واقف ہو، انجام بھی دیکھو گے؟‘

جی فیض صاحب ہم واقعی ابتدا سے واقف ہیں اور ہم نتائج سے بچ بھی نہیں سکتے، چاہے وہ نتائج جو بھی ہوں اور انہیں ظاہر ہونے میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔

13 جون جمعہ کو ایران کے خلاف اسرائیل کے بلا اشتعال فوجی حملے کو کئی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ الزام کہ ایران جوہری طاقت کے حصول سے چند قدم دور تھا، غیرتصدیق شدہ ہے۔ ایران نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ ان کی یورینیم کی افزودگی خالصتاً شہری مقاصد کے لیے ہے، پھر چاہے دنیا اس پر یقین کرے یا نہ کرے۔ تاہم مغربی ممالک کے تعاون سے کئی دہائیوں قبل ہی اسرائیل نے وہ طاقت حاصل کرلی تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے ایران پر حملہ کیا۔

تو اسرائیل کس اخلاقی بنیاد پر خطے کے کسی دوسرے ملک کو وہی جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روک سکتا ہے جو خود اس کے پاس ہے جبکہ اس نے ہمیشہ خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کے خیال کی مخالفت کی ہے؟ وہ مغربی اور اتحادی ممالک جو اب ایران کے جوہری طاقت بننے کے امکان پر آواز اٹھاتے ہیں، وہ اسرائیل کے جوہری طاقت بننے کے خلاف کیوں شاذ و نادر بولتے ہیں، حالانکہ 1953ء میں محمد مصدق کی حکومت کو معزول کرنے اور شاہ ایران کو بحال کرنے کی کامیاب امریکی اور برطانوی سازش نے ہی 1979ء میں اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کی؟

جہاں تک بنیامن نیتن یاہو کی ایران میں حکومت کی تبدیلی کی خواہش کا تعلق ہے تو اس کی ضرورت ان کے اپنے ملک کو ہے۔ رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے اور وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ ایران نے اب تک اپنے خطے میں موجود کسی بھی امریکی اثاثے پر حملہ نہیں کیا ہے۔

لیکن 20ویں صدی کے اوائل میں مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو کی بازگشت ایک صدی بعد بھی گونج رہی ہے۔ اسرائیل نامی ایک نوآبادیاتی وجود کا قیام اس منصوبے کا حصہ تھا۔

نیتن یاہو کی حکومت کو کئی دہائیوں سے ایران پر حملہ کرنے کی خواہش تھی اور یہ اعتماد تھا کہ اردن اور مصر جیسے قریبی ممالک اسرائیل کے سامنے سر جھکا دیں گے۔ گزشتہ امریکی حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالیں جبکہ بارک اوباما کے دور میں طے پانے والا کثیر الجہتی جوہری معاہدہ ایک اہم پیش رفت تھی لیکن صہیونیوں کے لیے یہ ایک دھچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے پہلے صدارتی دور میں ایران کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ اپنی لاعلمی پر پُراعتماد ٹرمپ نے صہیونی کی تعمیل کی لیکن اسی دوران عمان میں ایران کے ساتھ ایک بہتر ڈیل کا اعادہ کیا اور پھر ایران پر حملہ ہوگیا۔

ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے شاید ایران اپنی بقا کی خاطر امریکا کے انتہائی غیرمعقول مطالبات کو بھی تسلیم کرسکتا ہے۔ دوسری جانب ایران نے عندیہ دیا کہ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کو اپنی جارحیت میں امریکا کی مدد حاصل ہے۔

درحقیقت ایران پر حملوں کے آغاز سے چند گھنٹے قبل پینٹاگون کے قریب واقع پیزا آؤٹ لیٹس میں آرڈرز میں اچانک اضافہ ہونا اور ’جمعرات کی رات قریبی ہم جنس پرستوں کے بار میں غیر معمولی طور پر کم ہجوم‘، بتاتا ہے کہ انہیں علم تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا کا اسرائیلی جارحیت سے کوئی تعلق نہیں اور اسے اسرائیلی حملوں کا پہلے سے علم تھا، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ وہ فطری طور پر متضاد باتیں کہنے کے ماہر ہیں۔

اپنی 79 ویں سالگرہ منانے اور ایک ناقص امریکی فوجی پریڈ کے انعقاد کے بعد اس معاملے پر اپنے پہلے ٹروتھ سوشل پوسٹ میں امریکی صدر نے کہا کہ ان کے ماتحت حکام نے ایران کو بتایا ہے کہ امریکا ’اب تک دنیا میں سب سے بہترین اور سب سے مہلک فوجی سازوسامان تیار کررہا ہے اور اسرائیل کے پاس ان میں بہت کچھ ہے اور بہت کچھ انہیں ملے گا‘۔

ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کوئی ابہام نہیں رہا کہ امریکا اس جنگ میں کس حد تک ملوث ہے۔ یہاں تک کہ ٹرمپ نے جی 7 کے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کیا جس میں کشیدگی کم کرنے کی بات کی گئی تھی اور کینیڈا میں منعقد اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔

اس سب کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ جنگ بندی نہیں بلکہ ’حقیقی انجام‘ چاہتے ہیں، اب حقیقی انجام سے ان کا مطلب جو بھی ہو۔ وہ واحد لیڈر ہیں جو اگر چاہتے تو جنگ کو فوری طور پر روک سکتے ہیں۔ شاید یہ انہیں نوبیل انعام نہ دلوا سکے جس کی انہیں خواہش ہے، لیکن یہ یقینی طور پر انعام جیتنے کے امکانات کو ضرور بڑھا سکتا ہے۔

نیتن یاہو نے حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کو زیر کرنے کے بعد ایران پر حملہ کرنا آسان سمجھا۔ ایران کے خلاف جنگی جارحیت نہ صرف غزہ نسل کشی پر سے توجہ ہٹانے میں کارگر ثابت ہوگی بلکہ یہ اسرائیلی عدالتوں اور کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں ان کے اپنے قانونی اور سیاسی مسائل سے بھی انہیں فرار کا راستہ فراہم کرے گی۔ سب سے بڑھ کر اس نے غزہ میں خفیہ امریکی- اسرائیلی ’امدادی‘ مراکز سے توجہ ہٹا دی جو مبینہ طور پر داعش سے منسلک دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کام کررہے تھے۔

یہ فاشسٹ اور عادی دہشتگرد حکومت ایک ایسی طاقت بن چکی ہے جسے نہ صرف امریکا بلکہ پورا مغرب ہی تحفظ فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مانا کہ ایران کی موجودہ حکومت کے اپنے عوام کے ساتھ سنگین مسائل ہیں جبکہ اس کے پاس طاقتور اتحادی بھی نہیں جو ان کی حفاظت کرسکیں۔ بلاشبہ بہت سے ایرانیوں کی خواہش ہے کہ تھیوکریسی کی یہ حکومت ہٹ جائے لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ ایسا اسرائیل یا اس کے چیف اسپانسر کی مرہونِ منت ہو۔

ٹرمپ یہ دکھاوا نہیں کرسکتے کہ ان کی انتظامیہ براہ راست جنگ میں شامل نہیں جس میں سیکڑوں ایرانی جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، شہید ہورہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اپنی ظالمانہ حکومت کے باوجود ایرانی شہری ان دائمی مصائب کے مستحق نہیں ہیں جو مغرب نے عراق، لیبیا یا شام پر ڈھائے ہیں لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ اس خوفناک انجام سے کیسے بچ پاتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 20 جون 2025
کارٹون : 19 جون 2025
OSZAR »