عسکری تعلقات کے استحکام کے لیے آرمی چیف کا دورہ امریکا
چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکا پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کریں گے، اس دورے کا مقصد پاکستان اور امریکا کے درمیان عسکری و تزویراتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سفارتی ذرائع نے بتایا کہ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اتوار کے روز واشنگٹن پہنچے، جہاں وہ پانچ روزہ سرکاری دورے پر امریکا کے ساتھ عسکری اور تزویراتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دورہ بنیادی طور پر دوطرفہ نوعیت کا ہے اور باضابطہ طور پر 14 جون کو امریکا کی فوج کے 250ویں یومِ تاسیس کی تقریبات سے منسلک نہیں ہے، اگرچہ وقت کے لحاظ سے دونوں کا تقابل کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے فوجی پریڈ میں شرکت نہیں کی، لیکن کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ دو دن امریکی سینٹرل کمانڈ کے صدر دفتر ٹمپا، فلوریڈا میں گزارے، تاہم واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
ذرائع کے مطابق آرمی چیف کا یہ دورہ امریکا اور پاکستان کے مابین عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے، جس میں امریکی وزرائے دفاع و خارجہ اور اعلیٰ فوجی حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔
دوسری جانب ہفتے کی دوپہر پاکستان سفارت خانے کے باہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی حامیوں نے مظاہرہ کیا، جس میں پاکستان میں ’بلا روک ٹوک جمہوریت‘ کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ مظاہرہ آرمی چیف کی آمد سے قبل ہوا، مظاہرے کے ایک منتظم نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آرمی چیف واشنگٹن میں موجود ہیں، اسی لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اور اس طرح مظاہرے کو آرمی چیف کی موجودگی سے جوڑا گیا۔
بعدازاں پاکستانی سفارت خانے نے مظاہرے کے وقت آرمی چیف کے دورے کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا۔
یہ دورہ ایک نہایت حساس وقت پر ہورہا ہے، جب حالیہ دنوں میں اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے کیے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم جنوبی ایشیائی تجزیہ کار مائیکل کُگل مین کا کہنا ہے کہ اس دورے کو خطے میں کشیدگی نے پیچیدہ بنادیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان، امریکا کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے اسرائیلی حملوں پر اظہار مذمت کیا اور تہران کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایسے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا اسرائیل کے قریبی ترین اتحادی اور ایران کے اہم مخالف ملک کے دارالحکومت میں موجود ہونا غیر مطمئن گفتگو کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کی وجہ سے امریکی حکام پاکستانی وفد سے مکمل طور پر بات چیت کرنے سے قاصر رہ سکتے ہیں۔
کُگل مین کے مطابق انسدادِ دہشت گردی تعاون اس دورے کا مرکزی موضوع ہوسکتا ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر حالیہ پاک-بھارت سیز فائر کے بعد دوطرفہ تعلقات میں بہتری کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ وسیع تر سیکیورٹی شراکت داری کو دوبارہ ترتیب دینا ایک مشکل کام ہوگا۔
اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر سے وابستہ ممتاز تجزیہ کار شجاع نواز نے امریکی علاقائی ترجیحات میں پائے جانے والے تزویراتی عدم توازن پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن، پاکستان کو چین کے کیمپ میں دیکھتا ہے، مگر انسداد دہشت گردی کے لیے اسے ایک مفید اڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
دوسری طرف، بھارت میں وہ اپنی ٹیکنالوجی اور دفاعی سامان کے لیے بڑی منڈی اور تجارتی مواقع دیکھتا ہے اور یہ صورتحال عدم مساوات کو جنم دیتی ہے۔