شائع June 13, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


18ویں صدی میں آج ہمارا آخری پڑاؤ ہے۔ 18ویں صدی جب ختم ہوگی اور جیسے 19ویں صدی کا پہلا سورج بدھ کے دن (5 شعبان 1241 ہجری) طلوع ہوگا تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ 18ویں صدی کے پہلے برس کی پہلی جنوری جو جمعہ کے دن (10 رجب 1111 ہجری) تھی، بہت پُرسکون تھی مگر 19ویں صدی کی جھولی میں سکون کی خوشبو کے پھول بہت ہی کم ہوں گے خاص طور پر سندھ کے لیے۔

یہ یقیناً ایک معجزہ رہا کہ 18ویں صدی میں سندھ کے مشرق، شمال اور جنوب میں جنگوں کے میدان ایسے آباد تھے جیسے جاڑوں کے دنوں میں میلوں اور تہواروں کے میدان آباد ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں سندھ کے تالپور حکمران انتہائی سکون سے سندھ کے میدانوں میں شِکروں کی تیز نظر اور وحشی پنجوں سے تیتروں، خرگوشوں اور دیگر جانوروں کے شکار سے لطف اٹھا رہے تھے۔

سندھو کے پانی کی دوڑ صدیوں سے شمال سے جنوب کی طرف رہی ہے اس لیے جنوبی سندھ کے سمندری کنارے گھنے جنگلات، جھیلوں اور جنگلی حیات کے لیے ایک شاندار کائنات کے مثل رہے ہیں۔ میر صاحبان ان سرسبز، شاداب جھیلوں اور جنگلات کے حاکم تھے۔ مجھے نہیں پتا یہ بات حقیقت کے کتنے قریب ہے جو کچھ انگریزوں نے اپنی رپورٹس میں لکھی ہے کہ، ’تالپور حکمرانوں کی شکار گاہوں کے قریب اگر کسی کے گھر ہوتے تو ان کو معمولی رقم دے کر شکار گاہ سے دور گھر بنانے کا حکم سنا دیتے کیونکہ کتوں کے بھونکنے، بکریوں کی ممیانے اور لوگوں کی آوازیں ان کے شکار گاہوں میں موجود جانوروں کو وہاں سے بھگا دیتی ہیں۔ تالپور بادشاہ تھے، کسی کی مجال کے انکار میں کچھ بول سکے‘۔

   سندھ کے تالپور حکمران شکار کرتے وقت—ایک اسکیچ
سندھ کے تالپور حکمران شکار کرتے وقت—ایک اسکیچ

جون 1800ء کے آخری دنوں میں تالپوروں کو تحائف دینے کے لیے ناتھن کرو ہمیں ایک بار پھر حیدرآباد میں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مہمان بھی اپنے وفد کے ساتھ تالپوروں کی دربار میں نظر آتا ہے جو میر فتح علی خان کے لیے دو ہاتھیوں اور دیگر قیمتی تحائف دینے کے لیے ’ناگپور‘ سے آیا ہوا تھا جسے ناگپور کے مرہٹہ سردار رگھو جی بھونسلے نے بھیجا تھا اور یہ مہمان ناگپور کے سردار کا وزیر تھا۔ مرزا اسمعٰیل نے کرو کو بتایا تھا کہ ’امیر کے ساتھ ناگپور کے راجا کا اس سے پہلے کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی خط و کتابت تھی، یہ سب ٹھٹہ کے ہندو وکیل کی وجہ سے ہوسکا ہے جو کئی برسوں سے ناگپور کے راجا کی خدمت میں رہا ہے‘۔

ناگپور بادشاہت 18ویں صدی کی ابتدا میں دیوگڑھ کے گونڈ حکمرانوں کی قائم کی ہوئی ریاست تھی۔ 18ویں صدی کے وسط میں اس پر مراٹھوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس کا ناگپور شہر دارالحکومت تھا۔ 19ویں صدی میں کمپنی سرکار سے اس کا تصادم ہوا، اس وقت ناگپور کے دوسرے بھونسلے مہاراج رگھو جی دوم (1788 سے 1816ء) حاکم تھے جس نے سندھ حکومت سے وقت پر مدد مانگنے کے لیے اپنا وزیر وفد سمیت بھیجا تھا جسے ناتھن کرو نے وہاں دیکھا تھا۔ کمپنی سرکار جس کی جڑیں مسلسل اور بڑی تیزی سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنے شکنجے میں لے رہی تھیں۔ یہ وفد جو حیدرآباد پہنچا تھا اس کے 18 برس بعد ناگپور سلطنت برطانیہ کے تحت ایک نوابی ریاست میں تبدیل ہوئی اور 1854ء میں اسے برطانوی ہند میں شامل کرکے ناگپور صوبہ بنا دیا گیا۔

   حیدرآباد کے قلعہ کا مرکزی دروازہ اور مرکزی ٹاور—ایک اسکیچ
حیدرآباد کے قلعہ کا مرکزی دروازہ اور مرکزی ٹاور—ایک اسکیچ

ناگپور کے متعلق اس چھوٹے سے جملے پر ہم دو منٹ رک کر ایک بار پھر ان سطروں کو پڑھتے ہیں اور وقت کے اُلٹ پھیر کی تصاویر جو الجھی ہوئی جڑوں کی طرح ہیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حیدرآباد سندھ سے ہم اگر ناگپور کے فاصلے کا اندازہ لگائیں تو یہ کم و بیش 900 میل (1450 کلومیٹر) بنتا ہے۔ ایک مراٹھا ریاست کا مالک اتنی دور اپنا وفد اپنے وزیر کے ساتھ آخر کیوں بھیجے گا؟ ایسے اور وفود جو اَودھ اور راجستھان سے بھی حیدرآباد پہنچے تھے۔ کیا ان ریاستوں نے سندھ کے امیروں سے اپنے لیے کوئی مدد طلب کرنے کے لیے یہ وفد بھیجے تھے؟

ان کے متعلق تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ نہیں ایسا شاید کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وفود کوئی مدد طلب کرنے نہیں آئے تھے بلکہ سندھ کے حاکموں نے جو کراچی میں نئی تجارتی کوٹھی اور ننگر ٹھٹہ میں پھر سے تجارتی کوٹھی کھولنے کی اجازت دی تھی، اس کی وجہ سے آئے تھے۔

چونکہ سندھ کے مشرق میں پھیلے ہوئے ریگستان کے مشرق اور جنوب میں گوری سرکار نے ادھم مچایا ہوا تھا، وہاں کی ریاستوں کو پتا تھا کہ انگریز دھیرے دھیرے کیسے قبضہ کرتے ہیں اور ان کی دھوکے باز زبان پر سے جو شہد بھری باتیں فر فر نکلتی ہیں، وہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ان کے فریب سے بچنے کے لیے ان ریاستوں نے سندھ کے حاکموں کو آگاہ کرنا مناسب سمجھا کہ تالپور اگر ایک بار ان کی باتوں کی آکاس بیل میں لپٹ گئے تو پھر کوئی طاقت انہیں برباد کرنے سے نہیں بچا سکے گی۔ چلیے اس حوالے سے ابھی بہت ساری باتیں ہیں جو ہم باوقت ضرورت ایک دوسرے سے کرتے رہیں گے۔

   18ویں صدی کا اودھ—ایک اسکیچ
18ویں صدی کا اودھ—ایک اسکیچ

تجارتی کوٹھی پر 10 لاکھ کے قریب کمپنی کی لاگت آئی جس میں تعمیرات اور بھیجا ہوا سامان تھا۔ کرو کے تصورات کا پرندہ جہاں تک اُڑ کر جا سکتا تھا وہاں سے پورا منظرنامہ پُرسکون نظر آ رہا تھا۔ ننگر ٹھٹہ کی کوٹھی کا بیوپار زوروں پر تھا۔ جولائی کی گرمیوں کے بعد بارشوں کے موسم کی ابتدا ہوئی کیونکہ سمندر کنارے سے زیادہ بارش کا خوبصورت موسم اور کہیں بھی نہیں ہوتا۔ بارشیں برس پڑیں۔ ان برستی بارشوں میں کرو کو سندھ کے امیروں کا ایک حکم نامہ موصول ہوا۔ کرو اپنی اگست کی ایک رپورٹ میں اس متعلق لکھتے ہیں، ’اس ماہ کی 15 تاریخ کو ایک حکم نامہ ملا کہ فوری طور پر کراچی کی تجارتی کوٹھی کو بند کیا جائے اور مجھے فوری طور پر کراچی چھوڑ کر ٹھٹہ پہنچنے کے احکامات جاری ہوئے اور ٹھٹہ میں بھی مجھے اپنی رہائشگاہ تک محدود رہنے کی تاکید کی گئی‘۔

   ننگر ٹھٹہ کی تجارتی کوٹھی—ایک اسکیچ
ننگر ٹھٹہ کی تجارتی کوٹھی—ایک اسکیچ

مسٹر کرو کی 17 ماہ کی تگ و دو اور محنت سے جوڑا ہوا محل پلوں میں کسی ریت کے گھروندے کی طرح امیر کے ایک ہی حکم سے ملیامیٹ ہوگیا۔ کرو بارش کی موسم میں اپنا کچھ سامان اور کپڑے لے کر گھوڑے پر ٹھٹہ کے لیے نکلا اور 23 اگست کو ٹھٹہ پہنچا۔ پیچھے اس نے مسٹر درہام کو چھوڑا۔ کراچی چھوڑنے سے پہلے اس کے پاس کراچی کا دیوان جو اس کا اچھا دوست تھا، وہ ملنے کے لیے آیا۔ اس نے کراچی کی کوٹھی کو بند کرنے کا راز، کرو کو اس شرط پر بتایا کہ وہ نہ کسی سے اس کا ذکر کرے گا اور نہ تحریر میں لائے گا۔

مگر کرو اپنے وعدے سے مکر گیا اور اس کی تحریر ہم سب پڑھ رہے ہیں، وہ لکھتا ہے کہ ’دیوان نے مجھے بتایا کہ ٹھٹہ کا وہ وکیل ناگپور کے وزیر کے ساتھ حاکموں کے پاس آیا ہوا تھا، اس نے انگریزوں کی سازشوں اور فریبوں کے متعلق امیروں کے کان بھرے تھے، ساتھ ہی افغانستان کے زمان شاہ نے بھی امیروں کو سختی سے کہا تھا کہ انہوں نے انگریزوں کو اتنا نزدیک کیوں آنے دیا؟‘

   افغان حکمران زمان شاہ درانی
افغان حکمران زمان شاہ درانی

ٹھٹہ کے مشہور بیوپاری ’حاجی عمر‘ جس کا سندھ کی دربار سے اچھا تعلق تھا، اس نے خود کرو کو بتایا کہ ’بہت سارے ہندوستانی راجاؤں، کَچھ میں مقرر فتح محمد اور مسقط حکومت نے بھی انگریزوں کو سندھ میں اتنا زیادہ نزدیک آنے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا اور وہ یہاں تک سمجھ بیٹھے تھے کہ کراچی پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ ان تمام باتوں اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، سندھ کے امیروں نے یہ احکامات جاری کیے ہیں‘۔

کرو بمبئی کے گورنر کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں کراچی کے بیوپاریوں کے متعلق تحریر کرتا ہے کہ ’کراچی کے بیوپاری بالخصوص دریانو مل جس کے میر کرم علی خان سے قریبی تعلقات ہیں، سندھ کے امیروں میں سے میر کرم علی کراچی کی کوٹھی کو بند کرنے میں انتہائی پُرجوش رہا۔ میں اپریل میں حیدرآباد میں تھا تو میں وہاں ایک شادی میں شریک ہوا جہاں دریانو مل بھی شادی میں شرکت کرنے کراچی سے آیا تھا، میں نے حالات سے اندازہ لگایا کہ سندھ کے دربار کا ماحول بہت تبدیل ہوگیا ہے جو ہماری مخالفت اور دریانو مل کے لیے فائدہ مند ہے‘۔

کرو جب برستی بارش میں ٹھٹہ پہنچا تھا تو اس کے چوتھے روز یعنی 27 اگست کو کراچی اور ٹھٹہ کے بیچ راستے میں کرو کے منشی پر کچھ گھڑسواروں نے حملہ کیا جو کرو کا ضروری سامان کراچی سے ٹھٹہ لا رہا تھا۔ کچھ لوگ زخمی ہوئے اور شاید ایک کا بازو تک کٹ گیا اور گھڑسوار گم ہوگئے۔ یہ ڈرانے کے لیے ایک نفسیاتی حملہ تھا جو حکومت کی طرف سے کیا گیا ہوگا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کراچی کے بیوپاریوں اور دریانو مل نے مل کر کروایا ہو۔ کرو اس پر زیادہ بات نہیں کرتا فقط اتنا تحریر کرتا ہے کہ ’مجھے مرزا اسمٰعیل سے پتا چلا ہے کہ امیروں نے ان حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے سخت احکامات جاری کیے ہیں اور دوسری جانب مراد جوکھیو بھی اس حوالے سے سرگرم ہے جس سے مجھے امید ہے کہ اس کی کوششوں سے مجھے رقم اور ریکارڈ کے کاغذات ضرور مل جائیں گے‘۔

   منوڑا کا بنایا ہوا ایک اسکیچ
منوڑا کا بنایا ہوا ایک اسکیچ

کراچی کے بیوپاری سندھ کے امیر اور ان کے صلاح کار، بمبئی میں بیٹھا گورنر جوناتھن ڈنکن اسکوائر اور ان کے ہدایات سے بھرے خطوط اور ننگر ٹھٹہ میں بیٹھے۔ ناتھن کرو کے لیے حالات کسی بگولے جیسے ہوگئے تھے جس میں مٹی، دھند اور تیز ہوا ہوتی ہے، آنکھیں کھولنے کی اگر کوشش بھی کی جائے تب بھی منظرنامہ صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کمپنی سرکار آکاس بیل کی طرح بنگال سے لے کر پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی اور اس کے آفیسر بڑے طمطراق سے مغلوں کے بنائے قلعوں میں بادشاہوں کی طرح رہ رہے تھے۔ ایسی صورت حال میں سندھ میں ان کے ایک افسر کو یہاں کے حاکموں اور بیوپاریوں نے ایسے گرداب میں جا پھینکا تھا جہاں اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

حالات کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئے تو حیدرآباد سے، مرزا اسمٰعیل کا خط آ پہنچا جس میں کرو کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ حیدرآباد آئے اور میروں سے ملاقات کرے۔ آخری کوشش کے طور پر کرو حیدرآباد سے بھیجی گئی کشتی پر 8 ستمبر کو ٹھٹہ سے روانہ ہوا اور 10 ستمبر کو وہ میر ابراہیم شاہ کے گھر پہنچا جہاں امیروں کی ہدایات کے مطابق اس کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔

دوسرے دن امیروں سے کرو کو ملایا گیا، کرو نے کراچی کی کوٹھی کو بند کرنے پر میروں سے شکایت کی۔ یہ ملاقات شاید اتنی طویل نہیں رہی اور یہ ملاقات امیروں نے ضروری بھی سمجھی کیونکہ وہ حالات کے ایسے بھنور میں پھنسے تھے جس میں نہ وہ کمپنی سرکار سے کھلی دشمنی کر سکتے تھے اور نہ دوستی! اس لیے یہ ملاقات کراچی والی بند کوٹھی سے ملے زخم پر مرہم رکھنے کے لیے ایک بہانہ تھی۔ اس ملاقات کے اختتام کے بعد ابراہیم شاہ کی رہائش پر جاتے ہوئے تیز آندھی اور بارش کی وجہ سے کرو کچھ دن بخار کی وجہ سے بستر پر رہا۔

   بمبئی کا گورنر جوناتھن ڈنکن
بمبئی کا گورنر جوناتھن ڈنکن

کچھ دنوں یعنی 18 ستمبر کو اس کی ملاقات میر غلام علی خان سے ہوئی۔ اس نے بتایا کہ مرزا اسمٰعیل کو آپ کو خط لکھنے کا اسی نے کہا تھا کیونکہ انگریزوں کے خلاف بہت ساری شکایات کی وجہ سے میں بہت پریشان رہا ہوں اور ساتھ میں تمہاری حرفت کی کچھ شکایتیں بھی میرے پاس موجود ہیں۔ ساتھ میں یہاں تمہاری قائم بیوپاری کوٹھی کا جو بیوپار چل رہا ہے وہ اُن بیوپاریوں کے ساتھ ہے جنہیں پیسوں یا بیوپار کے حوالے سے کمزور بیوپاری کہا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کی بیوپاری کوٹھی کس طرح ایک شاندار اور زبردست کوٹھی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے؟

’اب میری خواہش یہ ہے کہ تم خود کو کچھ وقت کے لیے ٹھٹہ کی کوٹھی تک محدود رکھو گے اور پھر تم کراچی جا سکتے ہو اور وہاں اپنے بنگلے پر کوئی اچھا ایماندار آدمی مقرر کرو جو اس کی اچھی طرح حفاظت کرسکے۔ مجھے انگریزوں کی دوستی پر مکمل بھروسہ ہے سندھ میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ البتہ موجودہ حالات میں بیوپاری کوٹھی کا معطل ہونا وقت کی ضرورت ہے‘۔

کرو کو بھی لگتا تھا کہ سندھ کے امیر جان چھڑانے کے لیے اس سے ایسا کچھ ہی کہیں گے۔ جس کے لیے کرو تحریر کی صورت میں جواب لایا تھا۔ چونکہ وہ تحریر بہت طویل ہے مگر چونکہ اہم ہے اس لیے اس کے کچھ اہم حصے میں یہاں نقل کر رہا ہوں۔

’عالی جاہ کا شان و شوکت برقرار رہے! آپ کی بڑی عنایت کہ جو ہمیں کراچی میں کوٹھی کھولنے کی اجازت اور جگہ دی۔ ساتھ میں میرے اور میرے ساتھیوں کی رہائش کے لیے بھی جگہ دی گئی تھی مگر وہاں کے کچھ مقامی لوگ جن کی آنکھوں میں کمپنی کی یہ بیوپاری کوٹھی کسی کانٹے کی طرح چبھتی ہے، وہ آپ تک بے بنیاد شکایات لے کر پہنچے اور آپ نے ان کی باتیں مان لیں جبکہ یہ لوگ آپ کی بھلائی کرنے والے کبھی نہیں ہو سکتے۔ آپ کے اس عمل سے کمپنی سرکار کو جو تلخ تجربہ ہوا ہے، وہ اس سے پہلے ہمارے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔ ساتھ میں آپ نے یہ بھی احکامات جاری کیے ہیں کہ کوئی بھی جہاز اور آدمی کراچی نہ آئے۔

’اگر بمبئی میں قائم کمپنی سرکار، بمبئی اور دیگر بندرگاہوں کو یہ ہدایات جاری کی جائیں کہ کراچی اور سندھ کی دیگر بندرگاہوں سے جو بیوپاری کشتیاں ہندوستان آتی ہیں جو سامان سے لدی ہوتی ہیں اور جوکھیا جو ہتھیاروں کے ساتھ اُن کشتیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مقرر ہیں اُن سے کمپنی سرکار کو خطرہ ہے تو ان احکامات پر آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟ اس لیے میری گزارش ہے کہ کمپنی کے لیے آپ کی جانب سے جاری کیے ہوئے ان احکامات کو واپس لیا جائے اور ہماری دوستی کے جس رشتے میں خلل پڑا ہے، اسے دور کیا جائے تاکہ ہم پھر سے اچھے اور اعتماد کے راستے پر چل پڑیں کیونکہ آپ کے یہ احکامات اور ہمارے لیے موجودہ رویہ شاید مناسب نہیں ہے۔ کمپنی سرکار کو ان احکامات کو اپنی توہین سمجھتی ہے‘۔

8۔ 18ویں صدی کا بمبئی بندر اور قلعہ—ایک اسکیچ

ناتھن کرو ہمیں بتاتا ہے کہ سندھ کے امیر نے اس پورے خط کو بڑے غور سے سنا اور تحریر کے بیچ میں کچھ پریشان اور شرمندہ بھی نظر آیا اور خط کے اختتام پر اس نے پوچھا کہ اس نے کمپنی سرکار کی تذلیل کیسے کی ہے؟

میں نے امیر سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنی مہر سے اجازت نامہ دے کر پھر اچانک اس سے مکر جانا اور بارشوں کی سخت موسم میں مجھے فوری طور پر کراچی چھوڑ کر ٹھٹہ جانے کے لیے سخت احکامات جاری کرنا، ہمارے لوگوں کو بندر کے اندر جانے سے روکنا اور کراچی میں آپ کے سرکاری افسران کا تبدیل ہوتا ہوا رویہ، کیا یہ تذلیل کے زمرے میں نہیں آتے محترم امیر سندھ؟‘ میری ان باتوں سے امیر نے کچھ باتوں پر احتجاج کیا کہ اس نے کہا کہ اس نے کبھی ایسے احکامات جاری نہیں کیے جس میں آپ کے سفر میں یا مقرر سرکاری عملداروں کو آپ کے آنے جانے میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔

امیر نے میری ساتھ پیش آنے والے حالات اور پریشانیوں پر شرمندگی کا تاثر دیا اور میرے دوستانہ رویے کو اچھے الفاظ میں سراہا اور یقین دلایا کہ حالات کے تحت ہم آپ کے ساتھ بہتر چلنے کی کوشش کریں گے اور سہولیات بھی دی جائیں گی کہ دوستی کی اس ڈور کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور جتنا جلد ہوسکا دوستی کو پکا کرنے کے لیے ایک وفد بمبئی بھیجا جائے گا۔

   کمپنی سرکار کا اینٹیلوپ جہاز کراچی سے بصرہ جاتے ہوئے—اسکیچ وکی پیڈیا
کمپنی سرکار کا اینٹیلوپ جہاز کراچی سے بصرہ جاتے ہوئے—اسکیچ وکی پیڈیا

سندھ کے امیروں کی یہ باتیں فقط گزرے اچھے دنوں کی وجہ سے کرو کا دل رکھنے کے لیے کہی گئی تھیں۔ چونکہ تالپور حکومت افغانستان اور دوسری دوست ریاستوں سے اپنے تعلقات کسی بھی حالت میں بگاڑنا نہیں چاہتی تھی۔ ناتھن کرو حیدرآباد سے ہوکر جیسے ہی ننگر ٹھٹہ پہنچا تو اسے اکتوبر میں ٹھٹہ کی کوٹھی کو بھی بند کرنے کے احکامات موصول ہوئے اور ساتھ میں اسے سندھ چھوڑنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔

کرو مایوس ہوکر ٹھٹہ واپس لوٹا اور اپنی رپورٹ میں سندھ کو چھوڑنے کے متعلق تحریر کرتا ہے، ’کپتان اسکنر اینٹیلوپ‘ جہاز سمیت 22 اکتوبر 1800ء میں کراچی بندرگاہ پہنچا تین دنوں کے بعد میں جہاز پر سوار ہوا اور کراچی کے کناروں سے بصرہ کی طرف روانہ ہوا’۔

ناتھن کرو سندھ میں ڈیڑھ برس رہا۔ پتھاوالا اس حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں، ’ایسٹ انڈیا کمپنی کو سندھ میں بیوپاری کوٹھی کھولنے کی وجہ سے ایک لاکھ 96 ہزار 59 روپے کا نقصان ہوا۔ اس رقم کے علاوہ مختلف مواقع پر جو میروں کو تحفے تحائف پیش کیے گئے، اُن کی رقم23 ہزار 145 روپے بنتی ہے۔ کمپنی سرکار کی 1788ء میں شروع کی گئی تجارتی مہم 18ویں صدی کے اختتام پر ناخوشگوار تجربے پر اپنے اختتام کو پہنچی‘۔

اینٹیلوپ طاقتور بادبانوں کے ساتھ کراچی کے ساحل سے ضرور چلا گیا اور اس کے جانے سے اگر سب سے زیادہ خوشی کسی اور کو ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو مگر دریانو مل کو ضرور ہوئی ہوگی۔ وہ شاید یہ نہیں جانتا ہوگا کہ کمپنی کی نظر جہاں ایک بار پڑ جائے وہاں اُس کے بیج اُگ پڑتے ہیں۔ کمپنی ایک استعارہ ہے، بنیادی طور پر یہ سرمایہ داری کا کھیل ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ کمپنی کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔ چاہے ایسٹ انڈیا کمپنی ہو یا کوئی ملٹی نیشنل کمپنی۔ ہر کوئی سرمایہ دار یا وڈیرا ہے۔ ہر ایک کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کے لیے کبھی نہیں سوچتے۔

اپنے مفادات کی حصول کے لیے 1808ء میں ایک بار پھر کمپنی کا جہاز کراچی کے سمندر کے کنارے آ کر کھڑا ہوا ہے کیونکہ 1843ء میں ابھی زمانہ پڑا ہے۔ جب کمپنی سرکار نے سندھ پر قبضہ کر لیا تھا تو کمپنی سرکار نے اپنا سرمایہ کبھی ڈوبنے نہیں دیا۔ ساتھ میں ہمیں بمبئی کے گورنر جوناتھن ڈنکن کے یہ الفاظ ضرور یاد رکھنے چاہئیں جو اس نے کرو کو سندھ سے نکالنے پر، بوشائر میں مقرر ریزیڈینٹ مہدی علی خان کو لکھے تھے کہ ’ایک قوم کے ناطے یہ ناممکن ہے کہ ہم کرو کو سندھ سے نکالنے والے عمل کو بھلا سکیں۔ اگر خدا نے چاہا تو سندھ کے کوتاہ نظر حاکم اپنی اس غلطی کی سزا ضرور بھگتیں گے اور ان کے ساتھ جو حشر کیا جائے گا وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے‘۔

#حوالہ جات

  • Memoirs of Seth Naomul Hotchand, CS.L, Of Karachi. 1804-1878. Rao Bahadur Alumal Tikamdas Bhojwani. 1915.
  • British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
  • Crow’s Account of Sindh. Nathan Crow. 2004.
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
OSZAR »