• KHI: Fajr 4:13am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:19am Sunrise 4:57am
  • ISB: Fajr 3:14am Sunrise 4:57am
  • KHI: Fajr 4:13am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:19am Sunrise 4:57am
  • ISB: Fajr 3:14am Sunrise 4:57am

جیت کے دعووں کے درمیان طیارے گرائے جانے کا اعتراف، ’بھارتی عوام الجھن کا شکار ہیں‘

شائع June 2, 2025

بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان کی جانب سے بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں کی غیرمتعین تعداد گرائے جانے کی تصدیق سامنے آئی ہے جس نے پاکستانی عوام میں جیت کے احساس کو مزید تقویت دی ہے۔ جنرل انیل چوہان نے کہا کہ انہوں نے دوبارہ فضائی کارروائی کرنے سے قبل اپنی ’ٹیکٹیکل غلطی‘ سے سیکھا اور اسے درست کیا۔

جنرل انیل چوہان سنگاپور سلامتی کانفرنس میں شرکت کے دوران بلومبرگ سے گفتگو کررہے تھے جہاں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا بھارتی فضائیہ کے ایک یا ایک سے زائد طیارے گرائے گئے ہیں۔ ان کی تصدیق انتہائی دلچسپ انداز میں تھی کیونکہ وہ مسلسل یہ زور دیتے رہے کہ یہ اہم نہیں کہ وہ گرائے گئے (یہاں انہوں نے گرائے گئے جہازوں کے لیے جمع میں بات کی) بلکہ اہم وہ اسباق ہیں جنہیں سیکھ کر دو دنوں میں ہی جہاز دوبارہ فضا میں بھیجے گئے۔

اگرچہ پاکستان میں لوگ فخر اور راحت محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان کی فوج نے خود سے 6 یا 7 گنا بڑے اور بہتر دفاعی اخراجات والے دشمن کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن اب پاکستان کے لیے غور کرنے کا وقت ہے کہ وہ فتح سے حاصل ہونے والے ان فوائد کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کرے۔

سنگاپور میں جس فورم سے جنرل انیل چوہان نے بلومبرگ سے بات چیت کی وہیں پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹار کمیٹی جنرل ساحر شمشاد نے رائٹرز کو بتایا کہ دونوں ممالک کی افواج سرحدوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے 22 اپریل سے پہلے کی پوزیشنز پر واپس آچکی ہیں یا واپسی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔

لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلان کردہ بھارت کے نئے نظریے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ چھیڑنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بھارت کے یک طرفہ فیصلے نے بھی خطرات میں اضافہ کیا ہے۔ مزید کہا کہ زرعات پر انحصار کرنے والے ملک کے 24 کروڑ عوام سے یہ توقع نہیں کیا جاسکتی کہ وہ آرام سے بیٹھ کر اپنے نلکوں میں پانی کی فراہمی کو بند ہوتا دیکھیں۔

پھر دوسری جانب نریندر مودی کے شرپسند بیانات ہیں جنہیں بھارتی مبصرین 4 یا 5 ماہ بعد ہونے والے بہار کے انتخابات سے منسوب کررہے ہیں۔ یہ بیانات بے نتیجہ نہیں ہیں کیونکہ ان سے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دینے والے دو تہائی سے زائد بھارتی ووٹرز میں یہ توقع پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان کو ’سزا دینے‘ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کیا جائے گا۔

ایک اور عنصر جس کی وجہ سے بھارت بڑی کارروائی سے ہچکچا رہا ہے، وہ اس کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کیونکہ ماضی کے برعکس ایک بھی ملک نے 22 اپریل کے پہلگام دہشتگردانہ حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے نئی دہلی کے مؤقف کی تائید نہیں کی۔

بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر کی جانب سے ممالک کو بھارتی نقطہ نظر پر آمادہ کرنے میں ناکامی کے بعد بی جے پی حکومت نے ششی تھرور کی مدد حاصل کی جوکہ ماضی میں اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل رہ چکے ہیں جبکہ حال میں وہ انڈین نیشنل کانگریس کے رکن ہیں۔

بھارت کے لیے افسوس ناک بات یہ ہے کہ عموماً مہذب انداز میں گفتگو کرنے والے سیاستدان بھی اس وقت سوشل میڈیا ٹرول سے بہتر نہیں لگے کہ جب انہوں نے کولمبیا حکومت کی جانب سے حمایت نہ ملنے کا شکوہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کولمبیا نے بھارتی فضائی حملوں میں پاکستان میں ہونے والی اموات کی مذمت کی لیکن انہوں نے دہشتگردی اور پاکستان پر بھارت کے مؤقف کی تائید نہیں کی۔

یہ میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ پاکستان کے حجم سے 10 گنا بڑے اور انتہائی مستحکم معیشت والے ملک کی تضحیک کی جاسکے بلکہ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ حالیہ تنازع نے بھارت کو کس طرح شرمندہ کیا۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر الجھن پائی جاتی ہے۔ ایک جانب بہت سی ’دفاعی اور عسکری امور‘ کی نئی ویب سائٹس بھارت کے جیتنے کے بیانیے کا پرچار کررہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ بھارت جنگ جیت چکا وہیں دوسری جانب ان کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی جانب سے ایسا اعتراف سامنے آرہا ہے۔

مجھے حیرت نہیں ہوگی کہ اس طرح کی ذہنیت کے ساتھ بھارتی قوم پرست سیاسی قیادت اس طرح کی کوئی اور کارروائی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ آیا پہلگام واقعہ فالس فلیگ آپریشن تھا یا نہیں لیکن اکتوبر/نومبر میں طویل عرصے سے متوقع بہار انتخابات سے عین قبل اس نوعیت کا کوئی اور واقعے شاید رونما ہوسکتا ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ 24x7 تیار رہا جائے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کون سا ملک زیادہ دیر تک چوکنا رہ سکتا ہے کیونکہ فوج کو مکمل جنگی حالات کے لیے مکمل تیار یا اسٹینڈ بائی پر رکھنے پر کافی لاگت آتی ہے۔

بجٹ کی آمد کے ساتھ یہ واضح ہوجائے گا کہ اس تیاری کی پاکستان کو کتنی قیمت ادا کرنی ہوگی جس میں حالیہ 4 روزہ تصادم کے دوران پائی جانے والی کمزوریوں کی بنیاد پر نئے فوجی ساز و سامان کی خریداری بھی شامل ہے۔ ایک قوم جس کی اکثریت پہلے ہی مالی پریشانیوں کے بوجھ تلے دبی ہے، ان سے مزید قربانیاں دینے کا تقاضا کیا جاسکتا ہے۔

لہٰذا اس بات کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ حفاظتی حصار میں ایسی کوئی کمزوری نہ ہو کہ دشمن جس کا فائدہ اٹھا سکے۔ اندرونی ہم آہنگی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ گھر میں میل جول اور مفاہمت وقت کی ضرورت ہے۔ تمام لوگ جو اقتدار میں ہیں، وہ تمام جو اقتدار کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ لوگ جنہیں لگتا ہے کہ انہیں دھوکا دے کر اقتدار سے دور کیا گیا، سب کو مفاہمت کرکے عقائد یا انا پر مبنی خول سے باہر آکر اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ہم یہ لاتعداد بار سن چکے ہیں کہ بھارت اور اس کی سیکیورٹی سروسز کیسے بلوچستان میں دہشتگردی کی پشت پناہی کرتی رہی ہیں۔ اس سے قبل کئی بار ان سے نمٹنے کے لیے سخت راستے اختیار کیے جاچکے ہیں لیکن اس میں محدود کامیابی حاصل ہوئی۔ لہٰذا مفاہمت کا دائرہ صرف مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں/رہنماؤں تک ہی نہیں بلکہ اسے ان چھوٹے نسلی گروہوں تک بھی توسیع دینی چاہیے جن کے قابلِ مصالحت عناصر کو قومی دھارے میں واپس لایا جانا چاہیے۔

ایسا کرنے کے لیے بلوچستان کی وہ شخصیات جن کی سرپرستی اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے، ان کے لیے تو بلدیاتی انتخابات جیتنا مشکل ہے اور وہ کچھ بھی مفاہمت نہیں چاہیں گے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر امن قائم ہوگیا تو انہیں خدشہ ہے کہ ایسے حالات میں ان لوگوں کے ساتھ کام کیا جائے گا جو صوبے کے حقیقی نمائندگان ہوں گے۔ نتیجتاً ان سے اقتدار چھوڑنے کے لیے کہا جائے گا۔

مجھے یقین ہے کہ مودی صاحب کے جارحانہ بیانات سنگین غلط حساب سے جڑے ہیں اور وہ بار بار غلطی دہرانے پر مصر نظر آتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ پاکستان کی صفوں کو منظم کرنے اور اندرونی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اللہ کا دیا تحفہ ثابت ہوگا۔ اگر کوئی اس موقع کا فائدہ اٹھاتا ہے تو وہ پذیرائی کا حقدار ہے۔ یہ یکجہتی ناقابلِ تسخیر دفاع ثابت ہوگی جو ہمیں معیشت اور غربت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنائے گا، جس سے ملک بھر میں لاکھوں افراد پریشان ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 7 جون 2025
کارٹون : 6 جون 2025
OSZAR »