• KHI: Fajr 4:13am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:18am Sunrise 4:57am
  • ISB: Fajr 3:13am Sunrise 4:57am
  • KHI: Fajr 4:13am Sunrise 5:42am
  • LHR: Fajr 3:18am Sunrise 4:57am
  • ISB: Fajr 3:13am Sunrise 4:57am

ایران کا امریکی معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کا عندیہ

شائع May 28, 2025
فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران نے امریکی معائنہ کاروں( انسپکٹرز) کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کا عندیہ دے دیا۔

عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران نے بدھ کو کہا ہے کہ اگر امریکا کے ساتھ کوئی معاہدے طے پاتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے امریکی انسپکٹرز کو اپنی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے پر غور کر سکتا ہے۔

ایران کے اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلامی نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے ) کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں سے کہا،’ ان ممالک کے معائنہ کار ہمارے لیے کبھی قابل قبول نہیں رہے جو ہمارے مخالف تھے اور برسوں سے غیر اصولی رویہ اختیار کرتے رہے’

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی معاہدہ طے پاتا ہے اور تہران کے مطالبات کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو ایران ’ ایجنسی کے ذریعے امریکی معائنہ کاروں کو قبول کرنے پر دوبارہ غور کرے گا۔’

واضح رہے کہ مغربی طاقتیں طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کا الزام لگاتی رہی ہیں جبکہ تہران اس دعوے کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے، اور اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے۔

تہران اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ ہفتوں میں اس مسئلے پر مذاکرات کے پانچ دور ہوئے ہیں، جو 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا کے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد سے ان کا اعلیٰ ترین سطح کا رابطہ ہے۔

جنوری میں دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ٹرمپ نے تہران کے لیے اپنی ’ زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی پالیسی پر دوبارہ عمل درآمد شروع کر رکھا ہے جس میں ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بدھ کو کہا کہ ’ مذاکرات کے اگلے دور کے وقت اور مقام کے حوالے سے مشاورت جاری ہے، اور ایک بار حتمی شکل دینے کے بعد، ان کا اعلان عمان کی طرف سے کیا جائے گا۔’

ایرانی صدر مسعود پزشکیان، جو اس وقت عمان کے سرکاری دورے پر ہیں، نے خلیجی ریاست کا طویل عرصے سے حریفوں کے درمیان ثالثی کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا، جن کے 1979 سے کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

’ناقابل مذاکرات‘

مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، ایرانی حکام نے بارہا یورینیم کی افزودگی کو ’ ناقابل مذاکرات’ قرار دیا ہے، امریکی حکام، بشمول مذاکراتی عمل میں واشنگٹن کے نمائندے اسٹیو وٹکوف نے بھی عوامی طور پر اسے ایک سرخ لکیر قرار دیا ہے۔

محمد اسلامی نے یہ بھی کہا کہ ( مذاکرات میں) افزودگی کا معاملہ ’ بالکل بھی نہیں اٹھایا گیا’ اور ’ افزودگی کی شرح کو سیاسی طور پر نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔’

انہوں نے صحافیوں کو بتایا، ’ افزودگی کا فیصد استعمال کی قسم پر منحصر ہے، جب بہت زیادہ افزودہ یورینیم تیار کیا جاتا ہے، تو اس کا لازمی مطلب فوجی استعمال نہیں ہوتا۔’

وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کا کہنا تھا کہ ایران میں افزودگی کا تسلسل ملک کی جوہری صنعت کا ایک اٹوٹ حصہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایک بنیادی اصول ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی تجویز یا اقدام جو اس اصول سے متصادم ہو یا اس حق کو نقصان پہنچائے وہ ناقابل قبول ہے۔

واضح رہے کہ ایران اس وقت 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے،جو کسی بھی غیر جوہری ہتھیاروں والی ریاست کے لیے بلند ترین سطح ہے، تاہم یہ شرح پھر بھی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی حد سے کم ہے، لیکن 2015 کے معاہدے کے تحت مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔

2015 کے جوہری معاہدے کے یورپی فریقین — فرانس، جرمنی، اور برطانیہ — اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا معاہدے کے ’ اسنیپ بیک ’ میکانزم کو متحرک کیا جائے، جس سے عدم تعمیل کی صورت میں ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد ہو جائیں گی۔

دوسری جانب ایران نے اس اقدام کو فعال کرنے کے خلاف بارہا خبردار کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 12 جون 2025
کارٹون : 11 جون 2025
OSZAR »