لاہور میں 3800 سے زائد سرکاری گاڑیوں نے ٹریفک قوانین ہوا میں اڑادیے، جرمانہ بھی نہیں دیا
لاہور میں سینئر بیوروکریٹس اور پولیس افسران کے زیرِ استعمال سرکاری محکموں کی 3800 سے زائد گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائی گئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر گاڑیوں نے کئی بار قوانین کی خلاف ورزی کی، جو کہ عام شہریوں کے مقابلے میں اعلیٰ سرکاری افسران میں قانون شکنی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حیران کن طور پر اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی زیرِ استعمال سرکاری گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھی گئیں، ان میں انسپکٹر جنرل پولیس، کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان پوسٹ، زراعت، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرلز، لیسکو کے سی ای او اور ایڈیشنل چیف سیکریٹریز شامل ہیں۔
یہ انکشاف سٹی ٹریفک پولیس (سی ٹی پی) لاہور کی جانب سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس میں 3896 سرکاری گاڑیوں کا ریکارڈ شامل ہے جنہوں نے ٹریفک قوانین کو نظر انداز کیا۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس سرکاری محکموں میں سرفہرست ہے جن کی 496 گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئیں، اس کے بعد سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی 358 اور لاہور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (لیسکو) کی 328 گاڑیاں خلاف ورزی کرتے ہوئے پائی گئیں۔
سٹی ٹریفک پولیس کی رپورٹ کے مطابق یہ گاڑیاں وزیر اعلیٰ مانیٹرنگ سیل، قانون، پارلیمانی امور و انسانی حقوق محکمہ پنجاب، پاکستان ریلوے، پنجاب ریونیو اتھارٹی، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی سی ایل)، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (این ایچ اے)، وزارت ریلوے، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل)، محکمہ داخلہ پنجاب، محکمہ ماحولیات پنجاب اور لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) سمیت 73 مختلف محکموں سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک ایس پی کے زیرِ استعمال گاڑی نمبر ’ایل آر زیڈ-6076‘ نے سب سے زیادہ 107 مرتبہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور اس پر 50 ہزار 300 روپے جرمانہ عائد کیا گیا، جو تاحال ادا نہیں ہوا۔
اسی طرح ڈائریکٹر جنرل زراعت پنجاب کے زیراستعمال گاڑی نمبر ’ایل زیڈ آر-9872‘ نے 83 مرتبہ قوانین کی خلاف ورزی کی اور 74 ہزار روپےکا جرمانہ بھی ادا نہیں کیا۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری (ایس اینڈ جی اے ڈی) پنجاب کی گاڑی نمبر ’ایل ڈبلیو کیو-1235‘ نے 47 خلاف ورزیاں کیں اور 21 ہزار 300 روپے کا جرمانہ بھی ادا نہیں کیا، اسی افسر کی 7 دیگر گاڑیاں 65 مرتبہ قانون شکنی کی مرتکب پائی گئیں۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی 300 گاڑیاں واپڈا، 184 لائیو اسٹاک و ڈیری ڈپارٹمنٹ، 181 پی ٹی سی ایل، 130 ایس این جی پی ایل، 122 محکمہ آبپاشی، 117 پنجاب فوڈ اتھارٹی، 107 ڈی سی آفس، 102 لاہور کنٹونمنٹ بورڈ، 104 نیشنل ہائی وے اتھارٹی، 99 محکمہ زراعت، 89 لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی، 76 پاکستان ریلویز، 69 پنجاب ریونیو اتھارٹی، 68 محکمہ صحت پنجاب، 61 پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی، 42 محکمہ داخلہ پنجاب، 41 رنگ روڈ اتھارٹی، 40 پنجاب بورڈ آف ریونیو،37 پنجاب اٹامک انرجی کمیشن جبکہ 31 ایف آئی اے سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک سرکاری افسر کے مطابق ان خلاف ورزیوں کا انکشاف پنجاب سیف سٹی کیمروں کے ذریعے ہوا، جنہوں نے گاڑیوں کو شناخت کر کے انہیں ای چالان جاری کیے، سٹی ٹریفک پولیس نے تفصیلی تحقیقات کے بعد گاڑیوں کی ملکیت کی تصدیق کی۔
ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام افسران نے جرمانے ادا نہیں کیے، جس پر ٹریفک پولیس نے متعلقہ محکموں کو خطوط لکھ کر گاڑیوں کے اصل استعمال کنندگان کی شناخت اور جرمانوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے اور قانونی کارروائی کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔
چیف ٹریفک افسر (سی ٹی او) لاہور اطہر وحید نے یہ معاملہ چیف سیکریٹری زاہد اختر زمان اور آئی جی پی ڈاکٹر عثمان انور کے علم میں لا کر مداخلت کی درخواست کی ہے، تاکہ صوبے کے اعلیٰ افسران کی جانب سے قانون شکنی کا سلسلہ روکا جا سکے۔
دوسری جانب، سٹی ٹریفک پولیس نے صرف گزشتہ 10 دنوں میں شہریوں کے خلاف 4 ہزار 541 ایف آئی آرز درج کیں، جن میں سے کئی کو موقع پر ہی گرفتار کیا گیا، اس تضاد نے انصاف اور قانون کی یکساں عملداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔