’مشرقِ وسطیٰ کا مصنوعی ذہانت کی جانب بڑھتا جھکاؤ پاکستان کے لیے خطرہ ہے‘
گزشتہ ہفتے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پرپہنچے تو وہ اپنے ہمراہ امریکی ٹیک کمپنیز کے سی ای اوز کو بھی لے کر آئے۔ ان میں ایلون مسک، اوپن اے آئی کے سیم آلٹمین، نیوڈیا (Nvidia) کے جینسن ہوانگ، پیلنٹیئر (Palantir) کے ایلکس کارپ اور دیگر نمایاں نام شامل تھے۔
ان سی ای اوز کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکمرانوں سے ملنے اور معاہدے کرنے کا موقع ملا۔ اس کی وجہ سے وہ ہوا جو ٹرمپ کو سب سے زیادہ پسند ہے یعنی امریکی کمپنیز کے لیے اربوں ڈالر کے ٹیک معاہدوں کا اعلان ہوا۔
ان سب کے پیچھے پیسہ ایک بڑی وجہ تھا۔ امریکا سرمایہ داری پر چلتا ہے جسے جاری رکھنے کے لیے اسے رقم کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ مصنوعی ذہانت میں چین کے ساتھ مسابقت میں بھی امریکا کے لیے ایک زبردست اقدام تھا۔
ابوظبی اور امریکی کمپنی اوپن اے آئی کے درمیان طے پایا جانے والا معاہدہ اس بات کو واضح کرتا ہے۔ دونوں نے ابوظبی میں دنیا کے سب سے بڑے اے آئی مراکز میں سے ایک کی تعمیر پر اتفاق کیا جس کے لیے انفرااسٹرکچر اور منصوبوں پر 500 ارب ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔ یہ مرکز تقریباً 25 مربع کلومیٹر بڑا ہوگا اور اسے پانچ جوہری پاور پلانٹس جتنی بجلی درکار ہوگی۔
ابوظبی اس مقام تک کیسے پہنچا؟ اس کی کہانی دلچسپ ہے بالخصوص اس اعتبار سے کہ جب عالمی سیاست اور مصنوعی ذہانت پر امریکا اور چین کے درمیان مقابلے کے بارے میں سوچا جائے۔ متحدہ عرب امارات کا پروجیکٹ ابوظبی میں واقع ایک بڑی ٹیک کمپنی جی 42 کی مدد سے بنایا جا رہا ہے اور یہ دنیا بھر میں اسی طرح کے ٹیک مراکز بنانے کے لیے اوپن اے آئی کے ’اسٹارگیٹ‘ منصوبے کا حصہ ہے۔ لیکن ابھی چند عرصے پہلے تک امریکا کو اوپن اے آئی کی جدید ٹیکنالوجی کے جی 42 کے ساتھ اشتراک پر تحفظات تھے۔
2023ء میں جی 42 کی قیادت ایک چینی نژاد ایگزیکٹو نے کی۔ اس سال جب متحدہ عرب امارات کے ایک اہلکار نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ جی 42 کے چینی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط تھے۔
لیکن اس وقت سب کچھ بدل گیا جب جی 42 کے نئے سی ای او نے کہا کہ کمپنی نے چین کے ساتھ زیادہ تر اپنے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ چین کے منظرنامے سے غائب ہونے اور خلیجی رہنماؤں کی اپنے مقاصد کے لیے اے آئی کو استعمال کرنے کی خواہش نے اوپن اے آئی کے لیے راہ ہموار کی۔ یہی وجہ تھی کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ ہفتے ابوظبی پہنچے تو وہ اور اوپن اے آئی ایک بڑی اسٹریٹجک جیت کی قیادت کر رہے تھے۔ متحدہ عرب امارات کا چین سے دور ہونا اے آئی ٹیکنالوجی لیکس کے ممکنہ طور پر چین تک پہنچنے کے بارے میں امریکی خدشات کو دور کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس سے ایک بہت بڑے ڈیٹا سینٹر کے آغاز کا اعلان ہوا۔
لہٰذا متحدہ عرب امارات (سعودی اور قطریوں نے اپنے اپنے معاہدے کیے) خطے میں مصنوعی ذہانت کا سب سے بڑا ڈیٹا ہب بننے جا رہا ہے۔ یہ ان امیدوں کا بھی ظاہر کرتا ہے جو اماراتی حکمران اپنے پیشہ ورانہ اور سماجی ماحول میں اے آئی کے استعمال کے حوالے سے رکھتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات غیر ملکی ورکرز کی بڑی تعداد کو ملازمت دینے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ ورکرز تعمیراتی اور دیگر کم ہنر والی ملازمتوں سے لے کر انجینئرنگ اور ٹیک جیسی اعلیٰ مہارت والی ملازمتوں میں فعال ہیں۔ لیکن جیسے ہی ملک مصنوعی ذہانت میں ترقی کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں غیرملکی ورکرز پر اس کا انحصار کم ہوجائے۔
اے آئی ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بہت سی نوکریاں ختم ہوسکتی ہیں۔ اس میں کم ہنر والی نوکریاں شامل ہیں جیسے کیشیئر، ڈیٹا انٹری ورکرز، ٹرک ڈرائیور اور ڈیلیوری کرنے والے وغیرہ۔ مگر سافٹ ویئر انجینئرز اور ڈویلپرز جیسی اعلیٰ مہارت والی ملازمتوں کو بھی اے آئی سے خطرہ ہے کیونکہ کمپیوٹرز کوڈ کو تیز اور زیادہ درست طریقے سے لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ریڈیولوجی اور پیتھالوجی جیسے مخصوص شعبہ جات میں ڈاکٹر بھی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں کیونکہ مصنوعی ذہانت طبی ڈیٹا کا مطالعہ کرسکتی ہے اور انسانوں سے زیادہ مریضوں کی درست تشخیص کر سکتی ہے۔
پاکستان کو خلیجی ممالک کے اے آئی کے استعمال کی جانب بڑھتے رجحان پر تشویش ہونی چاہیے۔ پاکستان خلیج اور سعودی عرب جیسے ممالک میں اپنے کم ہنر مند اور اعلیٰ ہنر والے دونوں ورکرز بھیجتا ہے اور یہ ورکرز جو رقم گھر بھیجتے ہیں وہ ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ پاکستان میں خاندان اپنے بچوں کے مستقبل، تعلیم اور طلبہ جن مضامین کا مطالعہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، ان کی منصوبہ بندی بھی انہیں پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے پاس ابھی تک زیادہ اے آئی ٹیکنالوجی نہیں ہے لیکن وہ ممالک جہاں بہت سے پاکستانی کام کرتے ہیں، وہ تیزی سے اسے اپنا رہے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے تارکین وطن ورکرز کو ایک ایسے مسئلے کے طور پر دیکھا ہے جوکہ تصفیہ طلب ہے۔ اب انہوں نے ایک ایسا حل ڈھونڈ لیا ہے جو ان کے لیے کارآمد ہے۔
برصغیر کے وہ تمام چہرے جو ریاض اور دبئی کے دوروں میں نظر آتے ہیں، اگر وہاں کے حکمرانوں کی خواہش کے مطابق مشرق وسطیٰ کا نیا اے آئی مستقبل بن جاتا ہے تو ان ممالک میں ان کی نوکریوں کو خطرات لاحق ہوں گے۔
ان ممالک کے حکمران ایک ایسے مستقبل کا تصور کرتے ہیں جہاں اے آئی غیر ملکی لیبرز کی جگہ لے اور ان کے اپنے شہری ان کاموں کو سنبھالیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اگر مستقبل میں ان ممالک میں افرادی قوت کی طلب کم ہوجاتی ہے تو پاکستان جیسے ممالک اپنے لوگوں کے لیے کیا کریں گے جو بڑی تعداد میں ملازمین کی برآمدات کرتے ہیں؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔