سانحہ پی کے 8303: ’میں مسافروں کی چیخوں کو زندگی بھر نہیں بھول سکتا‘
کتاب ’Seat 1C: A Survivor‘s Tale of Hope, Resilience and Renewal’ کی کاپی ہاتھ میں تھامی تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ مناظر آنکھوں کے سامنے چھانے لگے۔ اس واقعے کو 5 سال ہوچکے ہیں کہ جب میں شہر کے دیگر میڈیا ساتھیوں کے ہمراہ کراچی ماڈل کالونی پہنچی تھی جہاں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 8303 کو حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ 22 مئی 2020ء کی دوپہر تھی۔
وہ منظر قیامت خیز تھا۔ تباہ شدہ جہاز کے آتشی ملبے سے دھویں کے سیاہ بادل اٹھ رہے تھے جبکہ فضا میں انسانی لاشیں جلنے کی عجیب بُو تھی۔ سڑکوں پر پانی کے ٹینکرز اور فائر ٹینڈرز کی بہتات تھی جو آگ بجھانے میں مصروفِ عمل تھے۔ کچھ کیمرا مین اور فوٹوگرافرز ایک نجی اسکول کی چھت پر چڑھ گئے تھے تاکہ انہیں جائے حادثے کا منظر زیادہ واضح نظر آسکے۔
جہاز آسمان سے ایئرپورٹ کے ساتھ واقع متوسط طبقے کے علاقے کے گھروں کے اوپر گرا تھا۔ اس گلی کو مرکزی سڑک سے جوڑنے والی ایک تنگ گلی تھی جسے فائر فائٹرز، رضاکاروں، طبی عملے، ایمبولنس ڈرائیورز جائے حادثہ تک پہنچنے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ ایسے المناک حادثے میں بھلا کوئی کیسے بچ سکتا تھا؟
ایئربس اے 214-320 رن وے 25 ایل سے کچھ دور رہائشی آبادی پر گر کر تباہ ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس کا انجن شعلوں کی لپیٹ میں تھا اور گھروں سے ٹکراتے ہی جہاز میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ابتدائی رپورٹس میں جہاز کے عملے سمیت تمام مسافروں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات تھیں جبکہ حادثے کی زد میں آنے والے گھروں میں بھی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
ایئرپورٹ سے متصل واقع رہائشی آبادی کے زیادہ تر مقیم روزانہ جہازوں کے اڑنے اور ان کی لینڈنگ کی آوازیں سننے کے عادی ہیں اور شاید انہیں اس وقت تک احساس نہیں ہوا جب تک ہوائی جہاز ان کے گھروں پر گر کر تباہ نہیں ہوا۔ جہاز کے اندر بھی کم از کم ایک دو مسافر ایسے موجود تھے جو پرواز کرتے ہوئے کسی بھی بے ضابطگی سے غافل رہے کہ جب تک صورت حال مکمل طور پر واضح نہیں ہوگئی۔
ظفر مسعود ان دو مسافروں میں شامل ہیں جو پی کے 8303 حادثے میں زندہ بچ گئے تھے۔ اب 5 سال بعد انہوں نے سانحے کی روداد کو اپنے تجربے سے بیان کیا ہے اور وہ اس بارے میں بھی بات کرتے ہیں کہ جہاز کے نیچے جانے کے ساتھ ساتھ ان کے گرد حالات کیسے تبدیل ہوتے گئے۔
بینک آف پنجاب کے سی ای او 50 سالہ ظفر مسعود بزنس کلاس کی فرنٹ نشست ون سی میں آرام سے بیٹھے ہوئے تھے۔ 24 سالہ میکینیکل انجینئر محمد زبیر اکانومی کلاس میں ایمرجنسی ایگزٹ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بدقسمت جہاز میں سوار 91 مسافروں اور 8 کیبن کریو میں زندہ بچ جانے والے دو افراد تھے۔ ظفر مسعود نے جہاز کے دوران اور کریش کے بعد کے اپنے تجربے کو کتاب کی صورت دی ہے۔
ظفر مسعود نے جائے وقوع پر موجود دیگر افراد، علاقہ مکینوں اور تفتیش کاروں کے تجربات کو بھی یکجا کرکے اپنی کتاب میں دستاویز کیا ہے۔ جہاز کے ٹکرانے سے معجزانہ طور پر ان کی نشست جہاز سے باہر آگئی تھی اور وہ اس دوران اپنے نشست پر بےہوشی کی حالت میں بیلٹ باندھے بیٹھے تھے۔ ان کی نشست ایک گھر کی تیسری منزل کی چھت پر گری اور پھر جہاں سے وہ سڑک پر کار کے بونٹ پر جا گری۔
ایوی ایشن حادثات کی تاریخ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جہاز کے پچھلے حصے یا ٹیل میں بیٹھنے والے مسافروں کے حادثے کی صورت میں بچنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کیونکہ جہاز کا اگلا حصہ پہلے زمین سے ٹکراتا ہے۔ 1965ء میں پی آئی اے کی قاہرہ جانے والی پرواز 705 کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے شوکت میکلائی نے بتایا تھا کہ وہ اس بدقسمت طیارے کی آخری سیٹ پر بیٹھے تھے۔
ظفر مسعود کو پہلے نشست ون سی نہیں ملی تھی بلکہ انہیں تو پی کے 8303 سے جانا ہی نہیں تھا۔ کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے بعد فضائی سفر بحال ہی ہوا تھا۔ انہوں نے ایک نجی ایئرلائن کی صبح کی پرواز کی بکنگ کروائی تھی لیکن انہوں نے دیکھا کہ عید کی وجہ سے مسافروں کو سہولیات دینے کے لیے پی آئی اے کی دوپہر کی پرواز کراچی روانہ ہورہی ہے۔ انہوں نے صبح جلدی اٹھنے کے بجائے پی آئی اے سے جانے کا فیصلہ کیا۔ لاہور ایئرپورٹ پر انہیں کھڑکی کے ساتھ نشست دی گئی لیکن انہوں نے جہاز میں قطاروں کے درمیان والی نشست کا تقاضا کیا تاکہ وہ سفر کے دوران اپنے بازو اور ٹانگیں پھیلا پائیں۔
اپنی نشست سے انہوں نے جہاز کے عملے کو روتے اور دعا کرتے ہوئے دیکھا۔ اگر صورت حال کے حوالے سے کوئی شک رہ گیا تھا تو نیچے گرتے ہوئے کاک پٹ کے کھلے دروازے نے جہاز کے متوقع انجام کی منظر کشی کی تھی۔ ان لمحات میں پوری زندگی ظفر مسعود کی آنکھوں کے سامنے آگئی اور پھر وہ بےہوش ہوگئے۔
ظفر مسعود نے محمد زبیر سے بھی بات کی۔ پورے واقعے میں محمد زبیر کے حواس بحال تھے اور انہوں نے ظفر مسعود کو بتایا کہ وہ چیختے رہے کہ جب تک جہاز ٹکرا نہیں گیا۔ ان کی سیٹ بیلٹ لگی ہوئی تھی جبکہ ان کے ساتھ والی دونوں نشستیں حادثے کی زد میں آچکی تھیں۔ آگ اور دھویں سے زبیر کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ انہیں چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی لیکن وہ کچھ دیکھ نہیں پارہے تھے۔
زبیر بتاتے ہیں کہ چیخوں کی آوازوں کو وہ زندگی بھر نہیں بھول پائیں گے۔ اپنی سیٹ بیلٹ کھول کر انہوں نے روشنی کی سمت جانے کی کوشش کی۔ ایمرجنسی ایگزٹ سے سورج کی روشنی دکھائی دے رہی تھی جو حادثے کے وقت کھل گیا تھا۔ اس دروازے کے ذریعے زبیر جہاز کے ونگ تک پہنچے جو جہاز ٹکرانے کی وجہ سے کسی طرح آگے بڑھ گیا تھا۔ ونگ سے انہوں نے گھر پر چھلانگ لگائی جو ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔
یہ کتاب محض بقا کی کہانی نہیں ہے۔ مصنف جو مختلف عہدوں پر فائز رہتے ہوئے پاکستان کے بینکنگ اور فنانس ایکو سسٹم میں بامعنی تبدیلیاں لے کر آئے ہیں، انہوں نے پی آئی اے کی تشویشناک ادارہ جاتی تنزل کو بھی بیان کیا ہے۔ قومی ایئرلائن نے کبھی مشرق وسطیٰ میں ایمریٹس، افریقہ اور ایشیا کی بڑی ایئرلائنز کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بدقسمتی سے پی آئی اے کا پی کے 8303 ایک دہائی کے عرصے میں ملکی فضائی حدود میں حادثے کا شکار ہونے والا چھٹا جہاز تھا۔
ظفر مسعود پائلٹس کے تکبر (اپنے جہاز کے پائلٹ جیسے) کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے معصوم مسافروں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جہاز کے کاک پٹ کی ریکارڈنگ سنی ہے کہ جس میں پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات کو نظرانداز کیا تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ فلائٹ عملہ، گراؤنڈ کنٹرول اور مینٹیننس حکام کی غفلت یا نااہلی کے تمام واقعات کے باوجود مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حقیقی تبدیلی کیوں نہیں لائی جاتی؟
اس کتاب میں ایسے اقتباسات بھی شامل ہیں جو قارئین کو کہانی کے اعتبار سے غیراہم لگیں لیکن ظفر مسعود نے انتہائی باریک بینی سے حقیقی معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے ان تمام باتوں کا ذکر کیا ہے جو حادثے کے بعد سے ان کے ذہن میں زیرِگردش تھیں۔ زندگی جینے کا ایک موقع ملنے پر معاشرے کی مدد کرنے کے عزم کے ساتھ، ظفر مسعود عاجزی سے اس بات کے معترف ہیں کہ وہ کوئی خاص شخص نہیں بلکہ وہ صرف خوش قسمت ہیں کہ اس واقعے میں زندہ بچ گئے۔
ظفر مسعود کی ریڑھ کی ہڈی ہل گئی تھی، ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، انہیں متعدد فریکچرز آئے تھے جبکہ ان کی ٹانگ اور کمر کا کچھ حصہ آگ سے متاثر ہوا تھا۔ انہیں علاج کے لیے متعدد سرجریز سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے دورانِ علاج اسپتال میں ہی ماہرِ نفسیات سے رجوع کیا تاکہ پوسٹ ٹراماٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے امکان کو دور کیا جاسکے۔
حادثے کے ایک ماہ بعد وہ اسپتال سے اپنے دفتری امور انجام دے رہے تھے۔ بلآخر حادثے کے 4 ماہ بعد انہوں نے لاہور واپس جانے کی ہمت کی۔ اسی راستے سے، اسی ایئرلائن میں اور اسی نشست پر بیٹھ کر وہ لاہور واپس پہنچے۔
ظفر مسعود صحت یابی کے لیے ایک طویل اور تکلیف دہ عمل سے گزرے ہیں لیکن وہ اپنے مضبوط ارادے اور کام جاری رکھنے اور اپنے گرد لوگوں کی مدد کرنے کے عزم کی وجہ سے ثابت قدم رہے۔ جسمانی اور نفسیاتی طور پر انہیں بحالی کے عمل میں کافی وقت لگا جبکہ مکمل بہتری کی جانب ان کا سفر اب بھی جاری ہے۔ یہ کتاب جو ظفر مسعود کے نقطہ نظر کو پیش کرتی ہے، ان کے طویل سفر کی گواہی ہے۔
کتاب: Seat 1C: A Survivor’s Tale of Hope, Resilience and Renewal
مصنف: ظفر مسعود
ناشر: لائٹ اسٹون
صفحات: 224
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔