تکبر اور طاقت اگر مل جائے تو حال بھارت جیسا ہوتا ہے
تکبر ایک ناپسندیدہ انسانی خصلت ہے اور جب کسی متکبر شخص کو اقتدار مل جائے یا اپنے اردگرد لوگوں کے مقابلے میں تھوڑی زیادہ طاقت مل جائے تو تکبر اور طاقت کا امتزاج اس کے سر پر چڑھ سکتا ہے یا چڑھ جاتا ہے۔
اس کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں، خودشناسی کم ہوجاتی ہے اور ایسا شخص خود کو بدل بھی نہیں سکتا کیونکہ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ چند خیرخواہوں (جو باقی رہ گئے ہیں) کے مشوروں کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے یا انہیں حاسدین میں شمار کرلیا جاتا ہے۔ جب ناروا سلوک کا سامنا کرنے والے مظاہرے کرتے ہیں تو وہ اسے اپنے اقتدار کی طاقت سمجھ لیتا ہے اور اس سے اس کے اندر برتری کے احساس کو مزید تقویت ملتی ہے۔ آخر میں ہوتا یہ ہے کہ جن لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اکثر کسی ایسے مضبوط شخص کے ساتھ مل جاتے ہیں جو ظالم کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔
جب کسی میں خود پرستی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو وہ اعتماد کے جھوٹے خول میں رہنے لگتا ہے اور جب یہ خول اترتا ہے تو نتیجہ دیکھ کر اسے صدمہ ہوتا ہے اور وہ حقائق کی تردید کرتا ہے جبکہ انہی جھوٹے عقائد پر قائم رہنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ تو تکبر زوال کا باعث بنتا ہے۔
اب جب کسی قوم کی پوری داخلہ اور خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی تکبر (یا اسٹریٹجک زعم کہہ لیجیے) ہو تو اس کی قیمت صرف ایک قوم یا اس کے شہریوں کو نہیں چکانا پڑتی بلکہ دوسرے ممالک کو بھی اس کے غیر متوقع اقدامات اور عدم تحفظ کے مزاج کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
بھارت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جو اتنا زیادہ چمکا کہ اپنی ہی چمک سے وہ اندھا ہوگیا۔ یہ ناگزیز تھا۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور دیگر کی جانب سے رکھی گئیں مضبوط بنیادوں کی بدولت، بھارت کی معیشت نے تیزی سے ترقی تو کرلی اور اس کی عالمی ساکھ میں بھی بہتری آئی۔ اسی دوران امریکا کو چین کی علاقائی اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحادی کی ضرورت تھی تو بھارت مغرب کا اسٹریٹجک پارٹنر بن گیا۔
وہیں دوسری جانب ہندوتوا کا عروج بھی جوبن پر تھا جس نے ان پیش رفتوں کو بھارت کی طویل عرصے سے کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے زمرے میں لے لیا۔ داخلی معاملے میں بھارتی بیانیہ بالادستی اور مظلومیت کا امتزاج تھا جو جدید فاشزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر میں ’اندرونی دشمنوں‘ کو کمزور اور بدعنوان عناصر دونوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ انہیں اکثریت کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اکثریت مضبوط اور عظیم ہے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح مسلسل حملے کی زد میں ہے۔
بھارتی سوشل میڈیا حتیٰ کہ مین اسٹریم میڈیا نے ناقابلِ یقین حد تک نفرت کا پرچار کیا اور اپنے عوام کو غلط معلومات فراہم کیں۔ یہ گھٹیا لگتا ہے لیکن شاید سیاسی مفادات یا عوام سے ووٹ جیتنے کے لیے انہیں اتنی زیادہ غلط معلومات دی گئیں لیکن جب قیادت ہی ان پروپیگنڈے پر یقین کرنے لگے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔ ہم نے بھارتی رہنماؤں کو ان پر یقین کرتے دیکھا۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت نے ایک اہم اصول کی پامالی کی جس کی پیروی منشیات فروش کرتے ہیں اور وہ ہے ’کبھی بھی اپنی بنائی ہوئی منشیات کا نشہ نہ کریں‘۔
بھارت کی نئی پارلیمنٹ کی عمارت میں، ’اکھنڈ بھارت‘ یا ’گریٹر انڈیا‘ کا نقشہ لٹکا ہوا ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک کو ایک بڑی، تصور شدہ ہندو سلطنت کے حصے کے طور پر دکھاتا ہے۔ یہ صرف بھارت کی بہادری نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار میں کچھ لوگ دراصل ایسا ہی چاہتے ہیں۔
بھارت کے حالیہ اقدامات اس کی حمایت بھی کرتے ہیں جس نے مالدیپ اور سری لنکا سمیت مذکورہ بالا ہمسایہ ممالک کے خلاف سخت اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے۔ یہی رویہ کینیڈا میں بھی دیکھنے میں آیا کہ جہاں ایک ہائی پروفائل قتل ہوا جس کا ذمہ دار بھارت کو تصور کیا جاتا ہے۔ یہ قتل اس قدر بے ڈھنگے انداز میں کیا گیا کہ اس میں چھوڑے گئے واضح شواہد سیدھا نئی دہلی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
اپنے اسی خواب کو پورا کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا جو اس کے نزدیک اندرونی طور پر تقسیم کا شکار، معاشی طور پر کمزور اور سفارتی طور پر تنہائی کا شکار تھا۔ اس کا گمان تھا کہ ایک فیصلہ کُن عسکری کارروائی سے بھارت کو تاریخی فتح مل سکتی ہے۔ لیکن ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ اپنے ملٹری نیٹ ورکس میں چینی ٹیکنالوجی کو کامیاب انداز میں ضم کرکے پاکستان حملے کے لیے ہتھیاروں سے لیس اور تیار تھا۔ اس نے نہ صرف طیاروں کو مار گرایا بلکہ بھارت کے عظیم طاقت بننے کے خواب کو بھی چکنا چور کردیا۔
یہ غیرارادی نتائج کی کلاسک مثال تھی کہ بھارت نے درحقیقت پاکستان میں خود اعتمادی کے احساس کی نئی روح پھونک دی ہے حالانکہ اس کی کمزوریاں اپنی جگہ برقرار ہیں۔ یقینی طور پر بھارت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اسے توقع ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان اور چین کا اتحاد دہائیوں پرانا ہے لیکن بھارت کا شکریہ جس کی وجہ سے یہ اب تاریخی سطح پر ہے۔
بھارتی لابنگ کی مرہونِ منت پاکستان کو امریکی اور مغربی ہتھیاروں تک آسان اور قابلِ اعتماد رسائی نہ مل سکی جس کے نتیجے میں پاکستان نے چینی ہتھیاروں کا انتخاب کیا جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔
2022ء میں لوک سبھا کی تقریر میں راہول گاندھی نے بھارتی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پاکستان اور چین کو قریب لانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ 2025ء میں اب ہم اس فہرست میں بنگلہ دیش کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔
دلچسپ طور پر سوشل میڈیا نے عالمی سطح پر بھارت کے مقدمے کو مزید نقصان پہنچایا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر بےقابو بھارتی جس طرح ہمسایہ ممالک پر تنقید کرتے تھے بالکل اسی طرح اب وہ پاکستان کی حمایت کرنے پر اب آذربائیجان اور ترکیہ پر حملہ کررہے ہیں جس سے بھارت کی ساکھ مزید مجروح ہورہی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔