بجٹ کی آمد: ’دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں‘
جنگ ختم ہوچکی۔ اب نتائج کے لیے کمر کس لینے کا وقت ہے یہ سب تبدیل کردیتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ہم اتنی تیزی سے کایا پلٹتے دیکھتے ہیں جیسا کہ ہم نے حالیہ دنوں دیکھا۔
فوج کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور عوام، تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں، جنرل صاحب پر اعزازات کی برسات کرنے کے لے لبمی قطاروں میں اپنی باری کی منتظر ہیں۔ شہروں میں کاروباری اور صنعتی تنظیموں کی جانب سے فوج کی تعظیم میں بینرز آویزاں کیے جارہے ہیں اور اخبارات میں اشتہارات شائع کیے جارہے ہیں۔
چلیے اس سے آغاز کرتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بھارت کے جارحانہ عزائم اب اس قدر واضح ہوچکے ہیں کہ دفاعی تیاریوں کی ضرورت پر بحث کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ رافیل طیارے گرانے والے جے 10 سی طیارے کو 2022ء میں اس وقت خریدا گیا کہ جب پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا۔ مستقبل کے پیش نظر یہ ایک ضروری فیصلہ تھا۔
جنوری 2022ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی فوری طلبی یاد ہے کہ جس کے دوران اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم کو چند منٹوں میں پیش اور منظور کیا گیا تھا؟ آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کے قانون میں جلد بازی میں ترمیم کی گئی۔ حکومت ایک سال سے ان تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کر رہی تھی لیکن بلآخر حکومت کو انہیں منظور کرنا ہی پڑا۔
2 فروری 2022ء میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرض پروگرام کے جائزے کو منظور کیا جس سے پاکستان کو ایک ارب ڈالرز ملے جوکہ کووڈ کے آغاز سے زیرِالتوا تھے۔ تقریباً 4 ہفتوں بعد 4 مارچ کو کامرہ میں پاک فضائیہ کی منہاس بیس پر 6 جے 10 سی طیاروں کی پہلی کھیپ پہنچی۔
مزید 6طیاروں کی دوسری کھیپ 30 اگست کو آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے 1.1 ارب ڈالرز کی ایک اور قسط کی منظوری کے چند دن بعد پہنچی۔ اور اس کے بعد اگلے چند ماہ میں تمام طیارے پاکستان پہنچ گئے۔ اس وقت تو یہ سوال پوچھنا ممکن تھا کہ ایک ملک جو اپنے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اس طرح کے جدید لڑاکا طیارے کیوں خرید رہا ہے؟ لیکن اب یہ سوال بے معنی ہوچکا ہے۔
ایک ایسے شخص کے طور پر کہ جس نے پوری زندگی امن کا پرچار کیا، جس نے دفاعی اخراجات کو پُرامن، ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی وکالت کی، میرے لیے یہ الفاظ لکھنا آسان نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت کو نظرانداز کرنا مشکل ہے اور دو عناصر جو حقائق کی زیادہ واضح تصویر پیش کرتے ہیں وہ جنگ اور معیشت ہیں۔
جنگ اور معیشت دونوں میں ہی کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کے سخت نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ دونوں کے نتائج کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، نہ یہ دکھاوا کیا جاسکتا ہے کہ یہ کچھ اور ہے اور نہ ہی الفاظ کا استعمال کرکے اسے چھپایا جاسکتا ہے۔
آج کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی مشرقی سرحدوں پر سنگین خطرات کا سامنا ہے جس کے لیے بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک نے کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر میزائلز کا تبادلہ نہیں کیا ہے۔ کسی بھی ایٹمی طاقت نے کبھی بھی کسی حیلے بہانے کی بنیاد پر کسی دوسرے کے ساتھ تنازع شروع نہیں کیا ہے۔
پہلگام کے واقعے پر شواہد پیش نہیں کیے گئے جو پاکستان کو براہِ راست پہلگام واقعے سے منسلک کرتے۔ ایک چھوٹا سا ثبوت بھی نہیں۔ درحقیقت جس وقت بھارتی حکام نے پاکستان پر الزام تراشی شروع کی تھی، وہ پہلگام حملے کے بارے میں سادہ سے سوالات کے جوابات دینے سے بھی قاصر تھے۔ حملہ آوروں کی تعداد کیا تھی؟ انہوں نے کون سے ہتھیار استعمال کیے؟ کتنی گولیاں چلائی گئیں؟ وہ کس راستے سے جائے وقوع تک پہنچے؟ وہ کس سواری سے آئے؟ وہ فرار کیسے ہوئے؟ کیا حملے کے دوران وہ اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں تھے؟ اور اسی طرح کے بہت سے سوالات ہیں۔
ایٹمی ریاست کی جانب سے یہ انتہائی غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔ میزائلز کے تبادلے کے دوران پاکستانی شہروں اور فضائی اڈوں پر حملہ کرنے کے لیے جوہری صلاحیت کے حامل براہموس میزائل کا استعمال کرنا بھی انتہائی لاپروائی تھی۔کسی بھی ثبوت کے بغیر پہلے ہی فوجی حملہ شروع کردینا اور جوہری صلاحیت کے حامل میزائلز کو محض بطور بم استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی جارحیت کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد تھا۔
یہ واضح کرنا مشکل ہے کہ بھارت اس جنگ کے ذریعے کیا عسکری مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ تاہم یہ تو واضح ہے کہ اس کی سیاسی قیادت اپنے ملک میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے فوجی طاقت کے مضبوط دعوے کا استعمال کر رہی تھی۔
لیکن یہ چال ناکام ہوگئی۔ سیاسی طور پر پاکستان کو بھارتی جارحیت کے سامنے جھک جانا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے پاکستان نے جوابی کارروائی کی اور پھر انہیں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنا پڑا۔ شاید انہیں گمان تھا کہ چونکہ پاکستان کی مالی حالت ٹھیک نہیں، وہ آئی ایم ایف پروگرام پر انحصار کررہا ہے، وہ عالمی تنہائی کا شکار ہے تو وہ زیادہ دیر اشتعال انگیزی برداشت نہیں کرپائے گا اور امن کی خواہش کرے گا۔
اب بھارت جو کچھ سوچ رہا ہو اس سے قطع نظر، پاکستان کے پاس اگلے مرحلے کے لیے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہا۔ کبھی بھارت دنیا کے لیے نمونہ تھا کہ ملک چاہے جتنا بھی غریب کیوں نہ ہو، اس کی جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ تصور 10 سال پہلے انتہا پسند لیڈر کے اقتدار میں آنے سے تبدیل ہوگیا۔ اور اب جس انتہاپسند کو بھارت نے وزیراعظم منتخب کیا ہے وہ تو اپنے عوام کو کہتے ہیں کہ انہیں پرماتما نے بھیجا ہے۔
مودی نے اپنی سیاسی تشخص کو فروغ دینے کے لیے جنگ کا استعمال کیا جیسے کہ گویا یہ ان کے لیے تفریح کا ذریعہ ہو۔ پاکستان کو اس خطرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
حکومت مالی سال 2026ء کے بجٹ کی تیاری کررہی ہے۔ اس عمل میں ان ضروریات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دفاعی نظام کی اپ گریڈیشن اور جنگ کے دوران استعمال ہونے والی ہتھیاروں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ رقم درکار ہوگی۔
افواج کی بڑھتی مقبولیت کا ہر کوئی فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ سیاستدان اور کاروباری حضرات فوج کی تعریف کرنے کے لیے آپس میں مقابلہ کریں گے اور اپنے مقاصد کو فوج کے مفادات سے جوڑیں گے۔ وہ کہیں گے، ’فوج کو تیار رکھنے کے لیے آپ کو ڈالرز درکار ہوں گے اور اہم برآمد کنندگان آپ کو ڈالرز لا کر دے سکتے ہیں‘۔ اور پھر وہ کہیں گے، ’یہ کرنے کے لیے ہمارے کاروباروں کی لاگت کم ہونی چاہیے‘۔
حکومت جو رواں سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ مالی گنجائش کی توقع کررہی تھی، اسے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنے چند منصوبوں کو ملتوی کرنا ہوگا۔
جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے تو پاکستان تحریک انصاف منظرنامے سے بالکل غائب ہوچکی ہے جوکہ گزشتہ سال نومبر میں اپنی ’فائنل کال‘ کی ناکامی کے بعد ڈھے گئی تھی۔ فوج کے لیے اٹھنے والی پذیرائی کی گونج میں اب اس کی آواز مزید دب جائے گی۔ جنگ کے نتائج کچھ اس طرح کے ہی ہوتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔