جوہری طاقت کے حصول کے لیے پاکستان کو کن مشکلات سے گزرنا پڑا؟
یہ اپریل 1994ء کی بات ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ واشنگٹن کے سرکاری دورے پر تھے۔ 1990ء میں جوہری معاملے پر پاکستان امریکا کی جانب سے عسکری اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا کررہا تھا۔ نتیجتاً 28 ایف 16 طیاروں اور بڑے پیمانے پر دیگر فوجی سازو سامان جن کی پاکستان ادائیگی کرچکا تھا، امریکا نے ان پر پابندی لگا دی۔
اس پس منظر میں جنرل وحید کاکڑ کے دورہ واشنگٹن میں بار بار جوہری مسئلے کو اٹھایا گیا۔ ایک میٹنگ جہاں میں بھی پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے شریک تھی، اعلیٰ امریکی عسکری اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں نے پیش کش کی کہ اگر پاکستان اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے اور افزودگی کی حد کی تصدیق کے لیے معائنے کی اجازت دینے پر راضی ہوجائے تو طیاروں سمیت تمام ہتھیار پاکستان کو دے دیے جائیں گے۔
جنرل وحید کاکڑ نے تحمل سے ان کی بات سنی اور مودبانہ انداز میں اپنے میزبان سے کہا، ’حضرات میں دوستانہ تعلقات کی غرض سے آیا ہوں اور ہمارے مشرق میں دوستی کو جہازوں اور ٹینکس سے نہیں ماپتے۔ آپ ہمارے ایف 16 اور ہمارے پیسے رکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے‘۔
اس میٹنگ کو یاد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان نے کیسے اپنی سلامتی کے اہم مسئلے پر کسی قسم کا سمجھوتا کیے بغیر اپنا پختہ مؤقف برقرار رکھا۔ اگر پاکستان نے ایسا نہ کیا ہوتا اور عالمی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا تو وہ ایٹمی صلاحیت حاصل نہیں کرپاتا جو آج ملک کی قومی سلامتی کی ضامن ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بحران، جھڑپوں اور فوجی تصادم کے واقعات کے باوجود، دونوں ہمسایہ ممالک کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد سے ان کے درمیان باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی ہے۔
حالیہ بحران نے بھی جوہری طاقت کے عنصر کو واضح کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے جوہری حملے کی نہج پر پہنچے بغیر محدود جنگ کرنے کے نظریے پر عمل کیا لیکن ہر بحران میں وہ حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ پہلی ایٹمی طاقت بن چکا ہے جس نے دوسری جوہری طاقت پر میزائلز اور فضائی حملے کیے۔ بھارت ’معمول بنا‘ لینا چاہتا تھا کہ جب وہ چاہے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے کسی بھی دہشتگرد حملے کے جواب میں شواہد کے بغیر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرائے اور پاکستان کی سرزمین پر فوجی کارروائی کرے۔
حالیہ بحران میں بھارت نے جدید ہائبرڈ جنگ کے تمام ہتھیاروں کا استعمال کیا جن میں بیلسٹک میزائل، ڈرونز، غلط معلومات، نفسیاتی ہراسانی اور دیگر ہتھیار شامل ہیں۔ لیکن روایتی جنگ میں پاکستان کی صلاحیتوں نے بھارت کو بڑے تنازع بھڑکانے سے روکا۔ پاکستان کی جوابی کارروائی میں (جس میں ابتدائی طور پر بھارت کے جنگی طیارے گرائے گئے) بھارت کو اپنی جنگی جارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
بھارتی حملوں کے دوسرے مرحلے جس میں پاکستان کی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے آپریشن لانچ کیا جس میں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر و دیگر علاقوں میں فضائی اڈوں اور فوجی تنصیبات پر فضائی حملے کیے گئے، میزائل داغے گئے اور مسلح ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔ جلد ہی واشنگٹن کی ثالث میں جنگ بندی ہوگئی جس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا۔
پاکستان کے بھرپور فوجی ردعمل کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ بھارت کو حدود سے تجاوز کرنے اور محدود روایتی فوجی کارروائیوں کے ذریعے ایک بڑی جوہری جنگ شروع کرنے سے روک سکتا ہے۔ بھارت کے جارحانہ اقدامات نے صورت حال کو مزید خطرناک بنا دیا اور اسے ایک مکمل جنگ کے دہانے پر دھکیل دیا۔ تاہم بھارت کو پاکستان کی جوہری ریڈ لائنز کو عبور کرنے سے پہلے ہی روکنا پڑا۔ اب اگر اس منظرنامے میں جوہری ہتھیار نہ ہوتے تو ایک بھرپور جنگ چھڑ سکتی تھی۔
جوہری طاقت بننے کی پاکستان کی کہانی کو یاد کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کیسے پاکستان نے اس سفر میں چیلنجز کا سامنا کیا اور ان پر قابو پایا۔ ایک ناقابلِ تسخیر مخالف کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان نے ابتدا میں بھارت اور اس کے مذموم تسلط پسند عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ فوجی اتحاد بنا کر بیرونی توازن کی حکمت عملی پر عمل کیا۔
لیکن جب 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تب اسے اندازہ ہوا کہ اپنی سلامتی کا تحفظ اسے تن تنہا کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں 1974ء میں بھارت کا جوہری دھماکا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس نے پاکستان کے لیے جوہری طاقت بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چھوڑا۔ تاہم مغربی ممالک نے بھارت کی سزا پاکستان کو دی اور امتیازی پالیسیز اپنا کر پاکستان کو ضرروی ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کے سفر میں متعدد رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اسے مغرب بالخصوص امریکا کے دباؤ، پابندیوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ثابت قدم رہا۔ ملک کو اسٹریٹجک صلاحیت پیدا کرنے میں 25 سال کی انتھک محنت لگی جبکہ اسے آپریشنل بنانے کے ترسیلاتی نظام بنانے میں بھی کافی وقت لگا۔ اگر یکے بعد دیگرے آنے والی عوامی اور فوجی حکومتوں نے لاگت کی پروا کیے بغیر اخراجات نہ کیے ہوتے تو یہ مقصد حاصل نہیں ہوپاتا۔ یہ حکومتیں جانتی تھیں کہ اس پروگرام پر قوم مضبوط اتفاق رائے رکھتی ہے۔
چند سال قبل شائع ہونے والی فیروز خان کی کتاب ’ایٹنگ گراس‘ میں اُن جغرافیائی اسٹریٹجک تبدیلیوں، اہم سیاسی اور سائنسی شخصیات اور اسٹریٹجک عقائد کے ارتقا کے درمیان دلچسپ تعامل کو بیان کیا گیا ہے جنہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے فیصلوں کو تشکیل دیا۔ یہ جوہری صلاحیت کے حصول کے لیے جستجو اور اسے درپیش چیلنجز کا دلچسپ امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کا عنوان ذوالفقار علی بھٹو کے مشہورِ زمانہ خطاب سے ماخوذ ہے کہ جنہوں نے کہا تھا کہ اگر بھارت بم بنائے گا تو ’ہم گھاس کھائیں گے، بھوکے رہیں گے لیکن ہم بھی بم بنائیں گے‘۔
فیروز خان بتاتے ہیں کہ کس طرح پاکستان نے سخت مشکلات کے باوجود نیوکلیئر فیول سائیکل میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے اس کامیابی کا سہرا چند افراد نہیں بلکہ سول-عسکری اسٹیبلشمنٹ کے سیکڑوں لوگوں کے اجتماعی عزم کو دیا۔ تاہم یہ جوہری کامیابی سائنسدانوں اور انجینئرز کے گروپس کی وجہ سے ممکن ہوئی جن کی صلاحیتوں کو ابتدائی سالوں میں استعمال کیا گیا تاکہ بھارت کے اسٹریٹجک چیلنجز کا بھرپور جواب دیا جاسکے۔
پاکستان کے جوہری سفر کے ایک بالکل مختلف پہلو پر توجہ مرکوز کرنے والی کتاب ’The Security Imperative: Pakistan‘s Nuclear Deterrence and Diplomacy’ ہے جسے بہترین سفارت کار ضمیر اکرم نے لکھا ہے۔ جوہری سفارت کاری نے ملک کی تزویراتی صلاحیت کو فروغ دینے کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کیا جسے ضمیر اکرم روشن بصیرت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کی کتاب کا ایک اہم موضوع یہ ہے کہ اپنے جوہری اور میزائل پروگرامز کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی سفارت کاری نے مغرب کے امتیازی رویے کا سامنا کیا۔
بطور سفارتکار میں خود بین الاقوامی دباؤ کی شاہد ہوں۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ یکطرفہ طور پر ٹیسٹ پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرے، اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے پر رضامند ہو، اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کی کانفرنس میں فیزائل میٹریل کٹ آف ٹریٹی کے لیے مذاکرات پر دستخط کرے اور اپنے میزائلز بنانے کے سلسلے کو روکے۔ پاکستان نے اپنے سلامتی کے مفادات کے تحفظ کے لیے مذکورہ بالا تمام مطالبات سے انکار کیا۔
انہیں فیصلوں اور بےمثال کوششوں کی وجہ سے پاکستان نے اسٹریٹجک صلاحیت پیدا کی تاکہ بھارت کی جانب سے جنگ چھیڑے جانے پر پاکستان اپنی سلامتی کا تحفظ کرسکے۔
ملک کے اندرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی اسی طرح کی ثابت قدمی کی ضرورت ہے بالخصوص ایک مضبوط، خود انحصار معیشت بنانے کے لیے مضبوط عزم کا اعادہ کرنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک کسی بھی قسم کے بیرونی دباؤ کی زد میں نہ آئے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔