کوئٹہ میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کیلئے ’صحت کی سواری‘ متعارف
’جھولا جھولو، قطرے پیو!‘ کوئٹہ کی سڑکیں بچوں کے لیے پرمسرت نعروں سے گونج اٹھیں جب امیونٹی ایکسپریس ’صحت کی سواری‘ حرکت میں آئی اور پرمسرت لمحات کو تحفظ کے سنگ میل میں تبدیل کر دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پولیو کے خلاف جاری جنگ میں ہر آخری بچے تک پہنچنا اولین ترجیح ہے، بار بار مہم چلانے کے باوجود، بہت سے بچے مسلسل محروم رہتے ہیں چاہے وہ انکار کی وجہ سے ہوں، ٹیم کے دوروں کے دوران غیر موجودگی کی وجہ سے، یا اس وجہ سے کہ وہ خانہ بدوش اور عارضی آبادیوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کوئٹہ نے پولیو مہم کے دوران 4 یونین کونسلوں سمنگلی، شیخاں، کوتوال ٹو اور خروٹ آباد ٹو میں ’امیونٹی ایکسپریس‘ کا آغاز کیا ہے۔
اس جدید اور کم لاگت اقدام کے تحت مقامی جھولے والے اور اونٹ مالکان بچوں کو مفت سواری کی پیشکش کرنے میں مصروف تھے، رنگ برنگے جھولوں اور اونٹوں کی سواری نے نہ صرف بچوں بلکہ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں اپنی برادریوں کے اندر قابل رسائی مقامات پر جمع کیا۔
جیسے ہی بچے سواری کی طرف آئے پولیو ورکرز نے ان کی انگلیوں پر حفاظتی قطرے پلانے کے نشانات کا جائزہ لیا، نشان نہ ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ فوری کارروائی کی جائے اور 5 سال سے کم عمر بچوں کو موقع پر ہی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں۔
اس خوشگوار ماحول نے بہت سے بچوں کو قطرے پلانے میں مدد دی جو پہلے کسی بھی وجہ سے محروم تھے۔
ایک پولیو ورکر نے فخریہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اس سرگرمی کے ذریعے، ہم ان بچوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جو ہمارے دوروں کے دوران گھر پر دستیاب نہیں تھے، یہاں تک کہ جب بچے سواری کے لیے آتے ہیں تو انکار بھی اقرار میں بدل جاتا ہے‘۔
بچوں نے مسکراتے ہوئے اپنی جامنی انگلیاں دکھائیں جس سے نہ صرف ان کے چہرے بلکہ ان کی آنکھیں بھی روشن ہوگئیں، ان کا جوش و خروش واقعی دیدنی اور دل کو چھو لینے والا تھا۔
’ہمیں مفت جھولوں سے محبت ہے! اور ہم نے پولیو کے قطرے بھی پی لیے ہیں!‘، وہ اونچا جھولتے ہوئے اور اونٹوں پر سوار ہو کر نعرے لگارہے تھے اور فخر سے اپنی انگلیاں دکھا رہے تھے۔
امیونٹی ایکسپریس کی کامیابی ایک اہم وقت میں سامنے آئی ہے، اگرچہ بلوچستان میں اس سال پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے لیکن خطرہ بہت زیادہ ہے، صوبے بھر کے کئی علاقوں کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کے سیوریج میں خاموشی سے گردش کرنے کے شواہد ملے ہیں۔
مزید برآں ہمسایہ ملک افغانستان اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں پولیو کے کیسز سامنے آرہے ہیں جس سے سرحد پار اور بین الصوبائی منتقلی کا مسلسل خطرہ ہے۔
اس طرح کے غیر مستحکم ماحول میں ویکسینیشن کی بلند شرح کو برقرار رکھنا وائرس کے خلاف واحد ڈھال ہے، محروم رہ جانے والا بچہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری برادری کے لیے خطرہ ہے، امیونٹی ایکسپریس جیسے اقدامات قوت مدافعت کے خلا کو پُر کرنے، ان لوگوں تک پہنچنے اور ہر بچے کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اہم ہیں۔
امیونٹی ایکسپریس نے خوبصورتی سے باور کرایا ہے کہ کس طرح سادہ خیالات، جن کی جڑیں لوگوں کی شمولیت اور خوشی میں پیوست ہوں، صحت عامہ کی کوششوں میں رخ موڑ سکتے ہیں۔ مسکراہٹیں بکھیرتے اور زندگیوں کی حفاظت کرتے ہوئے اس نے سب کے لیے پولیو سے پاک مستقبل کی طرف ایک اور معنی خیز قدم اٹھایا ہے۔