سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو دھمکانے کے لیے بھارتیوں کا گوبھی کا استعمال
بھارتی سوشل میڈیا بالخصوص موجودہ تناؤ میں اس کا بڑا حصہ، نفرت اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کا مرکب بن چکا ہے جبکہ اس میں جنونی قوم پرستی اور غلط معلومات بھی شامل ہیں۔ وہ ایموجیز کا استعمال شاید اسی لیے کررہے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، اس میں مزاح، انداز اور اچھے ذوق کی شدید کمی ہے۔
مثال کے طور پر گردش کرنے والے سب سے مشہور ’لطیفوں‘ میں سے ایک کو لے لیجیے جہاں ایک بھارتی سوشل میڈیا صارف نے پوسٹ کیا ہے، ’اگر کسی کشمیری لڑکی کو خطرہ محسوس ہورہا ہے تو رات میں وہ میرے گھر آسکتی ہے۔ آپ محفوظ ہوں گی اور آپ کی اچھی میزبانی کی جائے گی۔ منقسم بھارت ہارے گا جبکہ متحد بھارت جیتے اور ترقی کرے گا‘۔
اگر آپ بہت زیادہ مثبت سوچ رکھنے والے یا نادان ہیں تو آپ کو یہ ایک محب وطن اور فراخدلانہ پیشکش لگے۔ لیکن اس پوسٹ کے نیچے جوابات پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ اس بات میں کسی طرح کی حب الوطنی کا جذبہ شامل نہیں کیونکہ اس صارف نے مزید کہا کہ ’حجابی‘ اس کی ترجیح ہے اور جو لڑکی اس کی پیش کش قبول کرے گی، وہ صبح تک زندہ نہیں بچے گی۔
تو درحقیقت یہ ریپ اور قتل کی دھمکی ہے جسے مزاح کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کوئی بھی شخص جو سوشل میڈیا کے اس سیاہ پہلو سے آگاہ ہے، اس کے لیے یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ ایسے پوسٹ کے نیچے دیگر صارفین کی جانب سے ہنسنے، رونے اور ہنستے ہنستے رونے جیسے ایموجیز کا استعمال کیا گیا۔ اس تبصرے کی تائید میں حیران کُن طور پر بہت سی خواتین بھی پیش پیش رہیں جنہیں ’دشمن‘ کے ریپ کا خیال مزاحیہ لگا۔ اور جیسا کہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ تقلید چاپلوسی کی درست شکل ہے، اس ٹوئٹ کو لاتعداد بار کاپی اور ری شیئر کیا گیا۔
یہ رویہ صرف نامعلوم سوشل میڈیا صارف تک محدود نہیں۔ ایک برطانوی پاکستانی خاتون کے ساتھ ٹوئٹس کے تبادلے میں ممتاز بھارتی تجزیہ کار ابھیجیت ائیر مترا تقریباً 5 سیکنڈز میں ہی بدترین نوعیت کے جنسی طعنوں پر اتر آئے اور اتنی خراب زبان کا استعمال کیا کہ برے لوگ بھی ایسی زبان نہ بولنا چاہیں۔ چونکہ میں یہاں ان کے ٹوئٹس نہیں دہرا سکتا اس لیے اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں نے بہت سخت بات کی ہے تو آپ خود جا کر ان کے ٹوئٹس پڑھ سکتے ہیں۔ ایک اور بار ان کے ہم وطنوں نے ناراضی کے بجائے ان کی خوب آن لائن پذیرائی کی۔
اور پھر ایسے لوگ ہیں جو اسرائیل کے ظلم و ستم سے شدید متاثر ہیں اور دلی خواہش رکھتے ہیں کہ اس طرح کا کچھ بھارت میں بھی ہوسکے۔ یہ پہلگام کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نہیں۔ دائیں بازو کے بھارتی، انٹرنیٹ پر اسرائیل کی حمایت میں سب سے زیادہ آواز اٹھاتے ہیں بالخصوص جب سے وہ غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہے تب سے وہ شہید اور زخمی فلسطینی بچوں کی تصاویر پوسٹ کررہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ’مقامی غزہ‘ یعنی مسلم اکثریتی بھارتی علاقوں اور پاکستان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
نسل کشی کے کچھ تصورات مقامی جبکہ ان کی جڑیں حالیہ تاریخ سے جڑی ہیں جنہیں شاید فوراً سمجھ پانا آسان نہ ہو۔ مثال کے طور پر بڑی تعداد میں بھارتی صارف گوبھی کی تصاویر شیئر کررہے ہیں جس پر کیپشن ’گوبھی کی کاشت واحد علاج ہے‘ لکھا ہے۔
اب اس کا مطلب کیا ہے؟ شاید آپ کو یاد ہو کہ 1989ء میں رام جنم بھومی تحریک زوروں پر تھی، پورے بھارت سے جلوس بابری مسجد کے مقام پر ہندو دیوتا رام کے مندر کی بنیاد رکھنے کے لیے جمع ہوئے۔ تین سال بعد انہیں بنیاد پرستوں کی جانب سے بابری مسجد شہید کردی گئی جبکہ گزشتہ سال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اسی مقام پر وسیع رام مندر کا افتتاح کیا۔
1989ء میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) جیسے انتہا پسند گروپوں نے اپنے بہت سے مارچ جان بوجھ کر مسلم علاقوں سے گزارے۔ ہندوؤں کی جانب سے منظم انداز میں بھڑکائے جانے کا انجام یہ نکلا کہ بھاگلپور میں قتلِ عام ہوا جس میں 900 مسلمان جاں بحق ہوئے جوکہ کُل اموات کا 93 فیصد تھا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان میں سے 100 لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا اور ظلم کو چھپانے کے لیے اس قبر پر گوبھی کی کاشت کی گئی۔
بھاگلپور فسادات کی انکوائری کمیشن نے مقامی انتظامیہ کو ’نااہلی اور بے حسی‘ کا مرتکب پایا اور سپرنٹنڈنٹ کے ایس ترویدی کو ’فسادات کا مکمل ذمہ دار‘ قرار دیا۔ کے ایس ترویدی کا تبادلہ ہوا لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اور وِشو ہندو پریشد کے دباؤ میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے فیصلہ واپس لے لیا۔ اور اب یہی وہ لوگ ہیں جو آج بھارت پر حکمرانی کررہے ہیں۔
اگر آپ اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں تو گوبھی کی تصاویر پوسٹ کرنے کا مقصد درحقیقت مسلمانوں کے قتلِ عام کی کال دینا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں یہ دوسری بار ہے کہ یہ میم زیرِ گردش ہو۔ جب فلم چھاوا ریلیز ہوئی تو مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی کو جدید بولی ووڈ انداز میں پیش کیا گیا۔ اس کے بعد مغل حکمران اورنگزیب کی قبر کو منہدم کرنے کے ارادے سے وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے ناگپور میں فسادات کیے۔ اس دوران بھی گوبھی کو ہم نے سوشل میڈیا پر گردش کرتے دیکھا لیکن پہلگام واقعے کے بعد اب اسے زیادہ کھلے عام انداز میں دھمکی دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ایک اکاؤنٹ نے یہ تک پوسٹ کیا کہ اب کی بار قاتلوں کو ایک ’ہدف طے کرنا چاہیے۔۔۔ جیسے کم از کم 2 سے 3‘ مسلمانوں کو قتل کرنا چاہیے۔ اس ٹوئٹ کا جواب اس پر موجود 15 ہزار سے زائد لائیکس تھے۔ اور خواتین و حضرات اسی طرح نسل کشی کے لیے محاذ تیار کیا جاتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔