خوراک سے محروم غزہ کے باسی ’سمندری کچھوے‘ کھانے پر مجبور
محاصرے اور تنازعات سے دوچار غزہ کے کچھ خاندانوں نے پروٹین کے نایاب ذریعہ کے طور پر سمندری کچھوے کھانا شروع کردیے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایک بار خول ہٹانے کے بعد گوشت کو کاٹ کر ابال لیا جاتا ہے اور اسے پیاز، کالی مرچ ، ٹماٹر اور مصالحوں کے مرکب میں پکایا جاتا ہے۔
ماجدہ قنان نے لکڑی کی آگ کے اوپر ایک برتن میں ابلتے ہوئے سرخ گوشت کے ٹکڑوں پر نظر رکھتے ہوئے کہا کہ’بچے کچھوے سے ڈرتے تھے، لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ اس کا ذائقہ ویل کی طرح لذیذ ہوتا ہے، ان میں سے کچھ نے اسے کھایا، لیکن دیگر نے انکار کر دیا’۔
بہتر متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ تیسرا موقع ہے جب 61 سالہ قنان نے اپنے خاندان کے لیے کچھوے کے گوشت پر مبنی کھانا تیار کیا ہے جو بے گھر ہو گئے تھے اور اب جنوبی غزہ کے سب سے بڑے شہر خان یونس میں ایک خیمے میں رہتے ہیں۔
18 ماہ کے تباہ کن تنازع اور 2 مارچ سے امداد پر اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقے کے 24 لاکھ باشندوں کے لیے سنگین انسانی صورتحال کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
12 بڑی امدادی تنظیموں کے سربراہوں نے خبردار کیا ہے کہ قحط صرف ایک خطرہ نہیں ہے، بلکہ ممکنہ طور پر غزہ کے تقریباً تمام حصوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ماجدہ قنان نے کہا کہ کوئی کھلی راہداری نہیں ہے اور مارکیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے جب میں 80 شیکل (22 ڈالر) میں سبزیوں کے 2 چھوٹے تھیلے خریدتی ہوں، تو اس میں کوئی گوشت نہیں ہوتا۔
سمندری کچھوؤں کو بین الاقوامی سطح پر خطرے سے دوچار نسل کے طور پر قابل تحفظ قرار دیا جاتا ہے، لیکن غزہ کے ماہی گیروں کے جال میں پھنسنے والے کچھوؤں کو خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ماجدہ قنان کچھوے کے گوشت کو ایک پرانے دھات کے برتن میں ابالنے سے قبل آٹے اور سرکہ کے ساتھ دھوتی ہیں۔
ماہی گیر عبدالحلیم قنان کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی کچھوے کھانے کا نہیں سوچا تھا، جب جنگ شروع ہوئی تو خوراک کی قلت تھی، کھانا نہیں ہے لہٰذا (کچھوے کا گوشت) پروٹین کے دیگر ذرائع کے لیے ایک متبادل ہے کیونکہ گوشت، مرغی یا سبزیاں نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور نے متنبہ کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے تنازع کے بعد سے غزہ کو اپنے سب سے شدید انسانی بحران کا سامنا ہے، 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ میں لڑائی جاری ہے، جو صرف دو بار رکی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے علاقائی سربراہ حنان بلخی نے جون میں کہا تھا کہ غزہ کے کچھ باشندے اتنے مایوس ہیں کہ وہ جانوروں کی خوراک اور گھاس کھا اور سیوریج کا پانی پی رہے ہیں۔
حماس نے جمعرات کو اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، ماہی گیر عبدالحلیم قنان نے کہا کہ کچھوؤں کو اسلامی رسومات کے مطابق ’حلال‘ طریقہ کار کے تحت مارا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر قحط نہیں ہوتا، تو ہم اسے نہیں کھاتے اور اسے چھوڑ دیتے، لیکن ہم پروٹین کی کمی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔