حافظ آباد: شوہر کے سامنے بیوی سے گینگ ریپ کا مرکزی ملزم مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک
پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں تھانہ کسوکی کی حدود میں شوہر کے سامنے بیوی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے لرزہ خیز مقدمے میں مطلوب مرکزی ملزم خاور مبینہ پولیس مقابلے کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔
پولیس کے مطابق کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) حافظ آباد کی ٹیم نے شوہر کے سامنے بیوی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے والے ملزمان کی گرفتاری کے لیے مانگٹ اونچا کے قریب چھاپہ مارا تو مسلح ملزمان نے پولیس پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، اس دوران مرکزی ملزم خاور اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے زخمی ہوا اور ہسپتال منتقلی کے دوران ہلاک ہو گیا جبکہ اس کے دیگر ساتھی فرار ہو گئے۔
فائرنگ کے بعد تھانہ کسوکی پولیس نے سی سی ڈی سب انسپکٹر علی حسن کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے، جس میں قتل، اقدام قتل، کار سرکار میں مداخلت، سرکاری کام میں رکاوٹ، مشترکہ نیت اور غیرقانونی اسلحے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
سی سی ڈی پولیس کے مطابق کہ مفرور ملزمان کی تلاش کے لیے چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں، جبکہ ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ جوڑے کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مقدمے کی شفاف اور غیر جانبدار تفتیش کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں، متاثرہ خاندان کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہے اور اعلیٰ سطح پر کیس کی نگرانی جاری ہے۔
واقعے کا پس منظر
یاد رہے کہ کچھ روز قبل حافظ آباد کے علاقے مانگٹ اونچا میں پیش آنے والے واقعے میں خاور عرف اور اس کے ساتھیوں نے ایک شادی شدہ جوڑے کو اغوا کر کے خاتون کو اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
منگل کو پولیس نے متاثرہ خاتون کے شوہر کی درخواست پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 148 ، 149، 354 ، 354 اے، 355، 365، 375 اے، 382، 496 اے اور506 بی کے تحت مقدمہ درج کرکے 8 مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق واقعہ 25 اپریل کی شام تقریباً 7 بجے پیش آیا تھا جب شکایت کنندہ اور اس کی بیوی موٹر سائیکل پر سفر کے دوران راستے میں کچھ دیر کے لیے رکے اور خاتونموٹر سائیکل سے اتری تو ایک شخص ان کے قریب آیا، گالیاں دے کر اسے تھپڑ مارا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ کچھ ہی دیر بعد مسلح افراد کا ایک گروہ وہاں پہنچا اور جوڑے کو زبردستی قبرستان کے قریب ایک سنسان جگہ لے گیا، ایف آئی آر میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح جوڑے کو جسمانی تشدد، ریپ اور ڈکیتی کا نشانہ بنایا گیا۔
شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں بتایا کہ ’ہم دونوں کو باندھ دیا گیا اور مجھے زمین پر لٹاکر میرے سامنے بیوی کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا، میں ملزمان کو روکتا ہی رہ گیا‘۔۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان 2 موبائل فون، 2 تولہ سونا اور 2500 روپے نقدی بھی لوٹ کر لے گئے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ملزمان نے ہمیں اسلحے کے زور پر ایک دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا اور اس عمل کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا‘۔
ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ہم نے واقعہ رپورٹ کرنے میں تاخیر اس لیے کی کیونکہ ملزمان نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہم نے قانونی کارروائی کی یا میڈیکل چیک اپ کروایا تو وہ ہمیں قتل کر دیں گے اور ملزمان نے زیادتی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر بھی اپ لوڈ کر دی‘۔
متاثرہ خاتون کے شوہر نے اغوا، زیادتی، جنسی تشدد اور ڈکیتی کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تھی اور 8 میں سے4 ملزمان کے نام بھی بتائے تھے، درخواست گزار نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزمان کو فوری گرفتار کر کے سزا دی جائے۔
حافظ آباد کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) عاطف نذیر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھاکہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور انہیں 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر گرفتار کر لیا جائے گا۔
دوران زیادتی نہ صرف خاتون کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیں بلکہ انہیں سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ڈی ایس پی سی سی ڈی اعجاز احمد گجر حافظ آباد کی رپورٹر ڈان کو بتایا کہ ملزم خاور اس دل دہلا دینے والے واقعے کا مرکزی کردار تھا اور اسے گرفتار کرنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ اگرچہ ملک میں انسداد زیادتی قوانین موجود ہیں جن کے تحت زیادتی کی سزا سزائے موت یا 10 سے 25 سال قید ہے، لیکن ایسے واقعات بدستور سامنے آ رہے ہیں۔
مارچ میں، پنجاب پولیس نے لاہور میں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کے الزام میں 3 ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔
اسی سال کے آغاز میں، پنجاب حکومت نے انسداد زیادتی (تحقیقات و سماعت) ایکٹ 2021 کے تحت درج شدہ جرائم کی تفتیش اور خواتین کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے صوبے بھر میں اسپیشل سیکشوئل آفینسز انویسٹی گیشن یونٹس (ایس ایس او آئی یو ایس) کی تعداد بڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس حوالے سے صوبے بھر میں 150 مزید یونٹس قائم کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، کیونکہ ایسے کیسز کی بڑی تعداد رپورٹ ہو رہی تھی، پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے سیکریٹری داخلہ نورالامین مینگل کو ہدایت دی تھی کہ یونٹس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور خواتین شکایت کنندگان کی مدد کے لیے تربیت یافتہ افسران تعینات کیے جائیں۔